کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 141
17. غامدی صاحب قراء ات کو قرآن نہیں مانتے، گویا قرآن کے ایک جز کے منکر ہیں ، حدیث کو مستقل بالذات ماخذ ِدین نہیں مانتے اور صحابہ و اُمت کے کسی نص کے فہم پر اجماع کو حجت نہیں سمجھتے۔یہ میرے نزدیک تین ایسی بنیادیں ہیں کہ جن پر جمیع اہل سنت ائمہ اربعہ، ظاہریہ اورمحدثین کا اتفاق ہے اور ان کے انکار کی وجہ سے غامدی صاحب اہل سنت کے منہج پر نہیں ہیں اور جس عالم دین میں بھی یہ تین یا ان میں سے کوئی ایک بنیاد پائی جاتی ہیں وہ اہل سنت کے منہج پر نہیں ہے ۔ مفتی صاحب سے باتیں تو بہت سی کرنے والی ہیں لیکن فوری طور پر یہی باتیں ان کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔مفتی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ لاہور کے ایک عالم دین مولانا محمد رفیق چوہدری، جاوید احمد غامدی کے بارے میں علماے دیوبند، علماے اہل حدیث اور علماے بریلویہ کے فتاویٰ جمع کر رہے ہیں ۔مفتی صاحب ان سے ضرور رابطہ کیجیے گا۔کیونکہ ان کا موضوع بھی یہی ہے یعنی ’غامدی صاحب: علماء کی نظر میں ‘۔اور وہ علما، ایسے ہیں جن کو دنیا علما کہتی ہے نہ کہ فارغ التحصیل کے ساتھ فارغ العلم مفتی حضرات بھی!! کتاب کے دیگر حصوں پر ایک نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کتاب کے بقیہ حصوں پر بھی تھوڑی بہت روشنی ڈال دیں ۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس کتاب کا پہلا حصہ مفتی فیصل جاپان والا کا ہے جو کہ ۲۵ صفحات پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ مفتی کمال الدین مسترشد کا ہے جو ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے نظریۂ فطرت پر نقد کی ہے۔ مفتی صاحب کی اس ساری بحث کا خلاصہ دو نکات پر مبنی ہے: پہلا نکتہ سلف صالحین اور ائمہ متقدمین سے جڑے رہنے کی تلقین اور ان کے اجماعی موقف سے انحراف کی مذمت پر مشتمل ہے کہ جس سے ہمیں کلی طور پر اتفاق ہے۔ جبکہ دوسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب نے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے اور تقلید ِجامد پر اکتفا کرنے کو مسلمانوں کا اجماعی موقف قرار دیا ہے۔ بھلا کوئی مفتی صاحب سے یہ پوچھے کہ فطرت کی بحث کا تقلید ِجامد سے کیا تعلق ہے ؟مفتی صاحب نے اپنی بات کی دلیل