کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 140
غامدی صاحب کی کتاب کے حوالے جب اپنی تحریروں میں نقل کرتے ہیں تو اپنی جیبوں سے نکال کر نقل کرتے ہیں یا اُنہوں نے غامدی صاحب کو پڑھا بھی ہوتا ہے؟
16. میں نہ تو غامدی صاحب کی تکفیر کا مدعی ہوں اور نہ ہی ان کے منکر ِحدیث ہونے پر مصر، لیکن ان کے افکار گمراہ کن ضرور ہیں ۔ اور یہ افکار جس کے بھی ہوں کسے باشد ‘ وہ بھی گمراہ کن افکار کا حامل ہے۔آپ دیکھتے نہیں کہ امام غزالی نے اپنی شروع کی زندگی کے افکار ونظریات کے بارے میں المنقذ من الضلال یعنی گمراہی سے نکلنے والا، نامی کتاب لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک بڑے عالم دین کو بھی کسی مسئلے میں غلطی لگ سکتی ہے۔
قراء اتِ قرآنیہ متواتر ہیں اور ان کا منکر اسبابِ کفر میں سے ایک سبب کا حامل ہے لیکن موانع اور شروط کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔آپ کہتے ہیں کہ فلاں عالم نے لکھا ہے کہ قراء ات متواتر نہیں ہیں ۔میں کہتا ہوں کہ مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ، سوڈان اور افریقہ کے تقریباً چالیس ممالک کے کروڑوں مسلمان روایت ِورش‘ روایت ِدوری اور روایت ِقالون میں قرآن پڑھ رہے ہیں ، کیا اب بھی قراء ات متواتر نہیں ہیں ؟کیا سورج کے طلوع ہونے کے بعد کوئی سر پھرا اس کا انکار کر دے تو اس کے انکار کو بطورِ دلیل نقل کر دینا چاہیے؟میں یہ کہتا ہوں کہ جن نام نہادعلما نے لکھا ہے کہ قراء ات متواتر نہیں ہیں ، وہ تواتر کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ تواتر کا حقیقی مفہوم جاننے کے لیے ہماری کتاب ’فکر ِغامدی‘ کا نیا ایڈیشن ملاحظہ فرمائیں ۔ اور اپنے محدث العصر کے نظریات جاننے کے لیے اور اس کے افکار کی تردید کے لیے حنفی عالم دین قاری محمد طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی ’دفاعِ قراء ات‘ نامی کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔ائمہ اربعہ رحمہ اللہ اور ان کے متبعین رحمہ اللہ ، ظاہریہ رحمہ اللہ ، محدثین رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ و ابن قیم رحمہ اللہ جیسے محققین کے علمی اتفاق کے بعد بھی آپ کو قراء ات کے قرآن ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا تو آپ کااللہ ہی حافظ ہے۔جن علماء نے قراء ات کا انکار کیا ہے تو وہ غلطی پر ہیں اور ان کے افکار گمراہ کن ہیں ۔تفصیل کے لیے’ فکر غامدی ‘کا نیا ایڈیشن ملاحظہ فرمائیں ۔