کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 138
بنا دیا۔ اس پر مستزاد آج کے بریلوی علما ہیں جنہوں نے شرک و بدعت کو سند ِجواز عطا کیا ہے حالانکہ ان کے پاس بھی اسی درسِ نظامی اور اِفتاء کورس کی سند ہے جو ان مفتی صاحب کے پا س ہے۔ اس قسم کے فتاویٰ وشاذ اقوال پر ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے لیکن آپ ذرا غور فرمائیں ، اگر کوئی شخص علماء کے ان تمام شاذ اقوال کو جمع کر لے تو کیا اس کے مذہب اور قرآن وسنت کے بیان کردہ دین میں کوئی ذرا برابر بھی مماثلت باقی رہ جائے گی؟ اگر ان سب یعنی دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی علماء وغیرہ کے فتاویٰ ہی کو ایک شخص جمع کر کے ایک موقف بنا لے تو اس سے ایک نئی جماعت المسلمین تو مسلمان ثابت ہو سکتی ہے جو ان تینوں کے علاوہ ہولیکن یہ تینو ں گروہ نہیں ؟ 14.مفتی صاحب نے علماء کی ایک فہرست بھی پیش کی ہے کہ جن کی ملاقات اُنہوں نے غامدی صاحب سے کروائی ہے اور ان علما نے بقول ان کے غامدی صاحب کے گمراہ نہ ہونے کی سند بھی عطا فرمائی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے سے ہم گزر رہے ہیں ، یہ قحط الرجال کا دور ہے ۔ اب مدارس کے طلبا اورفارغ علما و مفتی حضرات کا مبلغ علم وہ نہیں ہوتا جو آج سے ستر، اسی سال پہلے تھا۔جامعہ اشرفیہ کے ایک شیخ الحدیث فرماتے تھے کہ دوسو طلبہ دورۂ حدیث میں ہیں اور ان میں چار یا پانچ وہ ہیں کہ جن کو واقعتا کچھ آتا بھی ہے۔ اسی طرح جامعہ اشرفیہ کے ایک اُستاد مولانا سرفراز صاحب ایک دفعہ ایک مجلس میں فرمانے لگے کہ تخصص کے کورسز سب سے بڑی خرابی یہ لے کر آئے ہیں کہ گلی گلی مفتی پیدا کر دیے ہیں اور بغیر کسی رسوخ فی العلم کے وہ دھڑا دھڑ فتوے جاری کرتے ہوئے انتشارِ ذہنی بڑھا رہے ہیں ۔دوسری طرف درسِ نظامی میں اساتذہ کی ضرورت کا مسئلہ پیش آئے تو نامور دارالعلوموں سے فارغ التحصیل کئی مفتی حضرات جو کہ تین، تین سال سے ’کنز الدقائق‘ ،’الہدایہ‘ اور ’تفسیر جلالین‘ جیسی کتابیں پڑھا رہے تھے، ان کا جب امتحان لیا جاتا ہے تو تدریس کی مطلوبہ لیاقت کسی میں نہیں ہوتی۔ درسِ نظامی کے کئی فارغ التحصیل جب مزید تعلیم کے لیے کسی جگہ داخلہ حاصل کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا معیارِ علم کیا