کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 136
مبحث سے کام لیاہے یاپھر اصل بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ غامدی صاحب نے سنت کی بحث کا تذکرہ بطورِ مصدرِ شریعت کیا ہے اور اس کی تعریف مصدرِ شریعت ہونے کے اعتبار سے بیان کی ہے۔مفتی صاحب اس کا جواب دیں کہ سنت کو جب شاہ صاحب یا فقہاے احناف بطورِ مصدر شریعت بیان کرتے ہیں تو ان کی مراد سنن الھُدٰی ہوتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر۔تفصیل کے لیے امام جصاص حنفی رحمہ اللہ کی الفصول اور ابن امیر حاج حنفی رحمہ اللہ کی التقریر والتحبیراور شاہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغۃ کا مطالعہ کریں ۔
9. مفتی صاحب کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کے نزدیک بھی حدیث حجت ہے لہٰذا ان کے نظریۂ حدیث پر نقد کیوں ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ جمیع اہل سنت کے نزدیک حدیث مستقل بالذات ماخذ ِدین ہے اور غامدی صاحب حدیث کو مستقل بالذات ماخذ ِدین نہیں سمجھتے۔ اگر غامدی صاحب حدیث کو مستقل بالذات ماخذ دین سمجھتے ہیں تو ان سے یہ بات لکھوا کر دستخط کروالیں ۔ سارا تنازع ختم ہو جائے گا اور ہمارے نزدیک اختلاف محض لفظی رہ جائے گا۔ غامدی صاحب کے اُصول و مبادی کے پہلے صفحے کی جس عبارت کا حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے کہ جس کو پڑھ کروہ پریشان بھی ہو گئے تھے، اس عبارت کا حقیقی مفہوم کیا ہے اس کے لیے ہماری کتاب’فکر غامدی: ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ‘کے نئے ایڈیشن کا انتظار فرمائیں ۔ان شاء اللہ غامدی صاحب اور اہل سنت کی تعبیر میں فرق کے اعتبار سے ان کے معتد بہ علم میں اضافہ ہو گا۔
10. میرے خیال میں مفتی صاحب کو غامدی صاحب کی فکرسمجھنے کے لئے ابھی خاصا وقت درکار ہے اور اس سے بھی زیادہ وقت فقہاے اَحناف اور اہل سنت کے تصورات کو سمجھنے کے لیے درکار ہے۔مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اختلاف صرف تعبیر کا ہے اور غامدی صاحب اہل سنت میں شامل ہیں ۔ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ ہم غامدی صاحب کو اہل سنت سے خارج کریں ۔لیکن غامدی صاحب کسی نص کے فہم پر اُمت ِمسلمہ تو کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کے بھی قائل نہیں ہیں ۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے جس اجماع کو وہ حجت مانتے ہیں ، وہ کسی چیز کے بطورِ دین ثابت ہونے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے نہ کہ کسی نص کے فہم پر۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کو حجت نہ