کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 133
کہتے ہیں لہٰذا اِختلاف کہاں ؟‘‘ حالانکہ دونوں کے موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جن علماء کے نام مفتی صاحب نے بیان کیے ہیں ، اگرانہوں نے واقعتا ان علما کا موقف پڑھا ہوتا یا پڑھنے کے بعد ان کو سمجھ بھی آیاہوتا تو وہ یہ بات کبھی بھی نہ لکھتے ۔جن علما کی اُنہوں نے بات کی ہے، وہ کیمرے کی تصویر کوجائز قرار دیتے ہیں نہ کہ ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر یا مجسمہ سازی کو، جبکہ غامدی صاحب ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر اور مجسمہ سازی کو نہ صرف جائز قرار دیتے بلکہ بعض صورتوں میں مطلوب بھی خیال کرتے ہیں ۔
2. مردوں کا ٹخنے ڈھانکنا جائز ہے۔ اس بارے میں بعض عرب علماء کے موقف کامفتی صاحب نے تذکرہ کیا ہے لیکن ان کے حوالہ جات مذکور نہیں ہیں۔ایک تحقیقی کتاب کا یہ خاصہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں بغیر کسی حوالے کے کوئی بات درج کر دی جائے جیسا کہ مفتی صاحب نے بعض مقامات پر ایسا کیا ہے ۔اسی طرح اگر کسی عالم کی طرف کسی بات کی نسبت کی بھی جائے تو اس عالم کی اصل عبارت نقل کی جائے تاکہ علما کو یہ معلوم ہو سکے کہ نام نہادمصنف و محقق کو کسی عالم کا نقطہ نظر سمجھنے میں کہاں غلطی لگی ہے ؟
3. مفتی صاحب کہتے ہیں کہ بعض علماے سلف کے نزدیک بھی عورت کا چہرہ پردہ میں شامل نہیں ہے اور غامدی صاحب بھی یہی کہتے ہیں تو فرق کیا ہوا؟حالانکہ مفتی صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ غامدی صاحب صرف چہرے کے پردے کی بات نہیں کرتے بلکہ سر کے دوپٹے کو بھی دینی حکم نہیں سمجھتے۔ دوسری بات جو مفتی صاحب نے متقدمین احناف اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھی کہ وہ چہرے کے پردے کے قائل نہ تھے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کو واجب نہیں سمجھتے جبکہ مستحب ہر حال میں قرار دیتے ہیں تفصیل کے شائق علامہ البانی کی کتاب الردّ المفحم علی من خالف العلماء وتشدد وتعصب وألزم المرأۃ بستر وجھھا وکفیھا وأوجب ولم یقتنع بقولھم: إنہ سنۃ ومستحب‘ ملاحظہ فرمائیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جلباب المرأۃ المسلمۃ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ