کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 132
٭ بہرحال ہم اس کتاب کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے بتایاہے کہ یہ کتاب تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اگر ہم مواد کے اعتبار سے اس کو تقسیم کریں تو اس کتاب کے تقریباً ۹۰ صفحات مفتی ذیشان پنجوانی صاحب‘ ۲۵ صفحات مفتی فیصل جاپان والا‘ ۱۷ صفحات مفتی کمال الدین مسترشداور ۲۳ کے قریب صفحات مختلف تبصرہ نگاروں کے ہیں ۔اس ساری کتاب پر تبصرے کے لیے تو ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر اس وقت اس کتاب کے وہ صفحات ہیں جو کہ اس کتاب کے تحقیقی پراجیکٹ کے سپروائزر جناب مفتی فیصل جاپان والا نے تحریر فرمائے ہیں ۔اس کتاب میں جناب مفتی صاحب نے اس خواہش کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صاحب اس کتاب میں کوئی غلطی دیکھیں تو اس سے مطلع فرمائیں ۔ہم نے ایک خط جناب مفتی صاحب کو بھی اِرسال فرما دیا ہے اور بعض دوستوں کی خواہش پر اس کتاب کا تبصرہ عامۃ الناس کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ ٭ سب سے پہلے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کتاب کا عنوان ہی غلط ہے۔یعنی ’غامدی صاحب: علماء کی نظر میں ‘ کیونکہ علماء کرام کے فرمودات کوئی ایسی حتمی میزان اور یقینی کسوٹی نہیں ہیں جن کے اقوال کی روشنی میں کسی شخص کے اَفکار و نظریات کو پرکھا جائے اور ان کے حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے۔خصوصاًجبکہ علما بھی ایسے ہوں ،جو دینی علوم میں بس اس قدر ہی پختگی رکھتے ہوں کہ ان کے پاس کسی دارالعلوم سے فراغت کی سند موجود ہو۔ در حقیقت اصل میزان ’کتاب و سنت ‘ ہیں ۔اگر اس کتاب کا تحقیقی پراجیکٹ یہ ہوتا کہ ’غامدی صاحب: کتاب و سنت کی روشنی‘ میں تو یہ ایک درست عنوان تھا۔ ٭ اس کتاب کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ غیر جانبدار ہو کر لکھی گئی ہے، حالانکہ کوئی بھی صاحب ِعلم جس نے غامدی صاحب کے افکار کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ہو، اس کتاب کے صفحہ ۱۷ تا ۳۷ کے بارے میں یہ تبصرہ کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ یہ انتہائی جانبدارانہ تحریر ہے ۔اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں : 1. علما کی آرا کو غامدی صاحب کی آرا سے موافق بنانے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔مفتی فیصل صاحب نے کہا کہ ’’علما تصویر کوجائز کہتے ہیں اور غامدی صاحب بھی جائز