کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 129
مقابلہ میں نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کو پٹھانوں نے قتل کیا تھا، اس لیے کہ تحریک شہیدین کے اکابر نے نعوذ باللہ پٹھانوں کی عورتوں سے نکاح کئے تھے اور پٹھانوں کو اس پر غیرت آئی اور انہوں نے ان کو قتل کر دیا تھا، کیا موصوف کا یہ فرمان ان اکابر کےخلاف کھلا بہتان نہیں؟ کیا موصوف اس بہتان کاکوئی حوالہ پیش کر سکتے ہیں؟ کیا آج تک کسی مسلمان مؤرخ نے بھی ایسا لکھا ہے ؟
اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ موصوف کے ملحد اساتذہ اور مستشرق اکابر کے علاوہ کس مؤرخ نے یہ بات لکھی ہے ؟ بلاشبہ یہ سب کچھ مغرب کے اس سبق کا نتیجہ اور اثر ہے جو موصوف نے کینیڈا ،امریکا اور برطانیہ کی درس گاہوں میں بیٹھ کر پڑھا تھا اور اب خیر سے اس کو دہرا رہے ہیں ۔ کیا ان کی یہ ہرزہ سرائی حضرات شہدائے بالاکوٹ کی قربانیوں پر پانی پھیرنے اور ان کی شخصیتوں کو داغ دار کرنے کے مترادف نہیں ؟ کیا یہ دین دار پٹھانوں پر پر بھی بدترین تہمت نہیں؟ کہ ان کو ایک اسلامی لشکر کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے ؟ الغرض موصوف نام کے مسلمان ہیں ، ورنہ ان کےدل ودماغ اور قلب وجگر میں اسلام ،اسلامی قوانین ،قرآن وسنت اور امت مسلمہ کے خلاف بغض و عداوت اور بغاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ موصوف اسلامی نظریاتی کونسل میں بیٹھ کر کیا کیا کارنامے انجام دے رہے ہیں اور ان کی سازشوں کا دائرہ کس قدر پھیلتا جا رہا ہے اوران کی علمی تحقیقی حیثیت کا کیا مقام ہے ؟ اس کے لیے ایک واقف حال کا درد بھرا خط پڑھئے اور سردھنئے :
جناب مولانا سعید احمد السلام علیکم ورحم اللہ و برکاتہ
روزنامہ ’اسلام‘ میں آپ کا مضمون ’کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ؟ ‘‘ پڑھ کر دل خوش ہوا، اطمینان ہوا اور دل سے آپ کے لیے سے دعا نکلی ، اللہ تعالیٰ آپ کو برکت اور استقامت دے۔ یہ مضمون پڑھ کر احساس ہواکہ ابھی اللہ کے بندے موجود ہیں جو جاگ رہے ہیں، اللہ نےانہیں بصیرت بھی دی ہے اور قوت گویائی بھی ۔ اکبر کے فیضی اور ابوالفضل کےبیانات ، تاویلات اور سفارشات اتنی ضرر رساں نہ تھیں کہ انہیں آئینی تحفظ حاصل نہ تھا، تب علمائے حق موجود تھے جو اکبر کی موجودگی میں حق بات کہہ دیتے ، اکبر خود بھی جانتا تھا کہ فیضی اور ابو الفضل خوشامدی ہیں ۔ مگر آپ نے اپنے مضمون میں جس شخص کو آج کا فیضی یاابو الفضل قرار دیا ہے ، اس کے بیانات ،تاویلات ، سفارشات کو آئینی حیثیت حاصل ہے ۔ عوام کو بھی یہ یقین ہے کہ