کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 128
ایسا لگتا ہے کہ موصوف اپنےآقاؤں کے خلاف کسی قسم کی کوئی بات سننا گوارہ نہیں فرماتے یہی وجہ ہے کہ انگریز بہادر کے مظالم کے خلاف جب بھی کسی نے آواز اٹھائی یا جس نے بھی کسی قسم کی کوئی تحریک بپا کی، وہ ان کے نزدیک بغاوت ہے اور بغاوت کی سزا قتل ہے ۔ ظاہر ہے ڈاکٹر خالد مسعود صاحب پاکستان کےمسلم معاشرہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ انگریز کے خلاف جہاد حرام ہے ، اس لئے انہوں نے اس کو پرائیویٹ جہاد کا نام دے کر اس کے خلاف اپنی دلی بھڑاس نکالی ہے۔ دراصل موصوف انگریزوں کےخلاف مسلمانوں کی تحریک، مسلمانوں کےجہاد، جنگ آزادی اورسکھوں کےخلاف حضرت اقدس سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کے جہاد، ان کی جاں سپاری اور پوری جماعت کی شہادت وقربانی سے ناراض ہیں، اس لیے وہ اس کوپرائیویٹ جہاد کا نام دےکر ان مخلصیں کو باغیوں کی صف میں لاکھڑا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی شہادت کو بغاوت کی سزا کانام دے کر ان کوقتل عام کو سند جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر جہاد کے لیے وقت کی کافرانہ حکومت کی اجازت شرط ہے توبتلایا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے مقابلے میں جہاد کے وقت کس سے اجازت لی تھی؟ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ بلکہ تمام کافر اقوام کے خلاف اپنے ۲۷ سےزیادہ غزوات میں کس کافر و مشرک حکومت سے اجازت لی تھی ؟ اگر انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کا جہاد اور سکھوں کےخلاف شہدائے بالاکوٹ کی تحریک پرائیویٹ جہاد تھا تو حضرات انبیائے کرام کا کافر اقوام اور حکومتوں کےخلاف جہاد کیونکر پرائیویٹ جہاد نہیں تھا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یقیناً اثبات میں ہے تو بتلایا جائے کہ حضرات انبیا کرام علیہم السلام کےجہاد پر کیا حکم لگایا جائے گا ؟ چلئے اگر جہاد کے لئے حکومت وقت کی اجازت شرک ہے تو بتلایا جائے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہو یا تحریک شہیدین ، اس میں مسلمان کس سے اجازت لیتے ؟ کیا وہ انگریزوں اور سکھوں سے اجازت لیتے کہ حضور! ہم آپ کے خلاف جنگ اور جہاد کرنا چاہتے ہیں ، کیا ہمیں اس کی اجازت ہے ؟ تف ہے اس عقل و دانش پر اور حیف ہے اس فکر وسوچ پر ۔ اس کے علاوہ ان کا یہ فرمان والا شان کہ شہدائے بالاکوٹ کی شہادت بھی سکھوں کے