کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 127
نےایک لاکھ روپے بینک سے قرض لیا ہے اور اس کی سالانہ شرح سود دس فیصد ہے تو سال بعد اس کے ذمہ ایک لاکھ دس ہزار ہو گا اور آئندہ سال اس بر ڈبل کر کےسود نہیں لگایا جاتا ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو بتلایا جائے کہ یہودی سودی نظام اور موجودہ سودی بینکاری نظام میں کیا فرق ہے ؟ اگر ان دونوں نظاموں میں کوئی فرق نہیں تو یہودی سودی نظام ناجائز اور موجودہ بینکاری سودی نظام کیونکر جائز ہو گا؟ کیا سود کے جواز اورعدم جواز میں سود خور کے دین ومذہب کو بھی کوئی دخل ہے ؟ کہ اگر سود لینے والا یہودی ہوتو سود ناجائز اور اگر سود لینے والا مسلمان ہو تو جائز ہو گا؟ اگر ان کی یہ انوکھی منطق مان لی جائے تو بتلایا جائے کہ یہ اصول تمام جرائم اور گناہوں پر بھی لاگو ہو گا؟ یعنی اگر کوئی غیر مسلم یہودی یا عیسائی زنا، چوری ، ڈکیتی کرے تو اس کا حکم دوسرا اور اگر وہی کام کوئی نام نہاد مسلمان کرے تواس کاحکم جدا ہو گا ؟ (۵) ڈاکٹر خالد مسعود صاحب جہاد کے بارہ میں بھی ظاہر ہے ،وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ان اساتذہ نے انہیں پڑھایا ہے ، چنانچہ وہ مسلمانوں کی جانب سے انگریزوں کےخلاف کئے گئے کسی جہاد سے متفق نہیں ہیں ۔ حتی کہ وہ ۱۸۵۷ء جنگ آزادی کو بھی پرائیویٹ جہاد کا نام دے کر اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح تحریک شہیدین یعنی مجاہدین بالاکوٹ کی قربانیوں پر پانی پھیرتے ہوئے اسے بھی جہاد قرار نہیں دیتے ، بلکہ شہدائے بالاکوٹ کی شہادت کو بھی خالص مغربی نقطہ نگاہ سےدیکھتے ہوئے اسے سکھوں کے خلاف جنگ کے بجائے مسلمانوں کی باہمی آویزش یا ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا عنوان دیتے ہیں ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’جوکچھ ۱۸۵۷ءمیں ہوا ،بالکل اسی طرح آج بھی ہو رہا ہے ، اس وقت بھی جوجہا د ہے مالاکنڈ، وزیرستان وغیرہ میں ہوا تھا، اب بھی وہی حالات ہیں۔ ایک فقہی سوال ہے اورایک ہے تاریخی سوال۔ فقہی سوال تو یہ ہے کہ اس وقت بھی جہاد نہیں تھا ،کیونکہ کسی کا فتویٰ نہیں تھا۔ سید احمد بریلوی کاجو جہاد ہے، وہ بھی جہاد نہیں تھا، وہ جہاد سکھوں کےخلاف نہیں تھا، پٹھانوں نے بھی ان کومارا، پٹھان سکھوں سے نہیں ملے تھے، انہوں نے پٹھانوں کی عورتوں سے شادیاں کیں تو پٹھانوں کے لیے یہ مسئلہ بن گیا۔ اصل میں پرائیویٹ جہاد کی یہی خرابی ہوتی ہے ۔ ‘‘ (سنڈے میگزین ،کراچی، ۲۸/ اکتوبر)