کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 126
کے برابر حقوق ادا نہ کئے تو قیامت کےدن اس کا گریبان ہو گا اوراس کی مظلوم بیویوں کا ہاتھ ہو گا، صرف یہی نہیں بلکہ قیامت کے دن ایسا شخص مفلوج کر کے اٹھایا جائے گا۔
بتلایا جائے کہ ایک مسلمان یہ وعید سننےپر عدل وانصاف کرے گا یا محض بیوی کی اجازت دینے پر ...... ؟
(۴) خالد مسعود صاحب حالیہ بینکنگ کے یہودی سودی نظام کےبھی حامی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے جس سود کی ممانعت کی ہے وہ یہودیوں کا سسٹم تھا، اب وہ نہیں ہے تو یہ موجود بینکنگ کاسود بالکل جائز ہے ، چنانچہ وہ خودفرماتےہیں :
’’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حالیہ دور میں بینکنگ کا نظام ہے جو خالد اسحٰق صاحب کی رائے تھی، اس میں کسی قسم کا ظلم نہیں ہے اور بینکرز جو ہیں اور بینکنگ سسٹم ہے ، اس میں پرانے زمانے والا یہودیوں کا گروہ نہیں ہے ، بلکہ ایک سسٹم ہے جس میں یہ لوگ بیٹھ کر حساب لگاتے ہیں کہ اس سود کی شرح کیا ہو گی اور اس میں کتنا اضافہ کرنا چاہیے اورکیا کرنا ہے ؟ اس میں یہ لوگ اپنے معاملات بھی دیکھتے ہیں اور سٹیٹ کے معاملات بھی دیکھتےہیں۔ کیونکہ اس میں استحصال نہیں ہے ، اس لیے یہ جائز ہے اورجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب یہودی زیادہ کاروبار کرتے تھے ، اس میں یہ تھا کہ وہ جب قرض دیتے تھے اور اس کے بعد جب وہ واپس آتا تھا ،سال کی بات ہوتی تھی یا چھ ماہ کی ، تو اس سے کہا جاتا تھا کہ تم اس وقت پورا قرض ادا کرتے ہو، یا اس میں اضافہ کر دوں؟ تو وہ کہتا تھا کہ ٹھیک ہے ، ۱۰۰ کےبدلے ایک سو پچاس میں تمہیں دوں گا ، لیکن ابھی نہیں دےسکتا، تو اسی طرح وہ دو گنا اور تگنا کرتے رہتے تھے، وہ نظام اب رائج نہیں ہے ۔ ‘‘ ایضاً
جناب خالد مسعود اگر کسی احمقوں کی جثت میں نہیں رہتے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا موجودہ سودی بینکاری میں سود کی شرح شروع سے ہی متعین نہیں ہوتی ؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقیناً اثبات میں ہے تو اس اعتبار سے موجودہ سودی نظام یہودیوں کے سودی سسٹم سے بھی بدرجہا بدتر قرار پاتا ہے ، کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے بقول یہودی توادائیگی میں تاخیر کی صورت میں سود میں اضافہ کرتے تھے، جبکہ موجودہ نظام میں شروع دن سے ہی سود لگا دیا جاتا ہے ، پھر اس کے علاوہ کیا موجودہ سودی سسٹم میں، سود پر سود نہیں لگایا جاتا ؟ مثلاً اگر ایک آدمی