کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 125
(۳)ڈاکٹر فضل الرحمٰن کےمرتب کردہ اورصدر ایوب خان کے نافذ کردہ عائلی قوانین میں یہ قرار دیا گیا ہےکہ اگر کوئی شخص دوسرا نکاح کرنا چاہیے تو پہلے اپنی بیوی سے اجازت لے ، اگر وہ اجازت دےدے تو فبہا، ورنہ اگر اس نے بلااجازت دوسرا نکاح کیا تو اسے عائلی قوانین کی رو سے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی ۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم قرآن وسنت کی صریح نصوص صحابہ کرام ، ائمہ مجتہدین اورچودہ صدیوں کے علمائے کرام کی تحقیقات کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ لیکن موصوف ڈاکٹر خالد مسعود اس کے جواز میں نعوذ باللہ قرآن کریم پر اپنی تحریف کا تیشہ چلاتے ہوئے کہتےہیں: ’’قرآن کریم میں بڑا واضح ہےکہ جہاں بھی حکم ہے، اگر تم یہ سمجھو تو دو، تین ،چار شادیاں کرو، لیکن یہ یقین کر لو کہ تم عدل کرو گے ۔ تو عائلی قوانین بنانے والوں نے سوچا کہ عدل کی ایک صورت یہ تھی کہ جو آپ کی پہلی بیوی ہے ، اگر و ہ اجازت دےدے تو ٹھیک ہے ، تو یہ اجازت اس عدل کو کہا گیا ، جس کا قرآن مجید میں تقاضا ہے ۔ ‘‘ موصوف ڈاکٹر صاحب سےکوئی پوچھے کہ اس آیت کا جو مفہوم عائلی قوانین کےمرتبین نےاخذ کیاہے ، کیا ان کے علاوہ کسی اور سے بھی منقول ہے ؟ کیا یہ بزرج مہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین سےبھی زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں؟ کیونکہ انہوں نے تو دوسری شادی کو اس عدل سے کہیں نہیں جوڑا، پھر اس کے علاوہ ان کو اس بات پر بھی سوچنا چاہیے کہ چلئے ایک شخص نےاس عدل اجازت کاتقاضا پورا کرتےہوئے پہلی بیوی سے اجازت لے لی اور دوسرا نکاح کر لیا ،لیکن باین ہمہ اگر وہ عادل انسان پھر بھی پہلی بیوی کو نان نفقہ نہیں دیتا، اس کو اس کی باری محروم کرتا ہے یا اس پر ظلم و ستم کرتا ہے یا اس سے بے اعتنائی برتتا ہے تو پھر عائلی قوانین اس مظلومہ کی کیا مدد کریں گے؟ اور وہ اس عادل کے خلاف کچھ کر بھی کیوں سنیں گے،کیونکہ وہ تو عدل کے قانونی تقاضے پورے کر چکا ہے ،بتلایا جائے کہ اس بر عدل کی خلاف ورزی کا جرم کیونکر لاگو ہو گا؟ اس سے ملعوم ہوا کہ عائلی قوانین عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتے ، بلکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہےکہ کسی مسلمان مرد کو اس کے شرعی اور اسلامی حق سے نہ روکا جائے ،ہاں البتہ اس کی اس طرح ذہن سازی کی جائے کہ اگر اس نےایک سےزیادہ نکاح کئے اور اپنی بیویوں