کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 124
بغاوت اوران کو جاہل و لاعلم کہنے کے مترادف نہیں؟ اگر بالفرض اس کا یہی معنی و مفہوم تھا تو کیا اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف طور پر یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ ایک سے زیادہ نکاح نہ کیا کرو؟ بتلایا جائے کہ اس مختصر سی تعبیر کوچھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل تعبیر کیوں اختیار کی ؟ اس کے علاوہ موصوف نے تعدد ازواج کی ضرورت کوایک معاشرتی ضرورت کہتے ہوئے اس کے لیے جو مثال دی ہے ، ہمارے خیال میں کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا،بلکہ صحیح معنی میں ایک باغیرت مسلمان کو اس کے تصور سے بھی قے آئے گی ، مگر موصوف چونکہ انگریز معاشرت کے دل دادہ ہیں ،اس لئے انہوں نے بلا تکلیف وہ سب کچھ کہہ دیا، جس کی کسی باغیرت انسان سےتوقع نہیں کی جا سکتی ، چنانچہ پڑھیئے اور سر دھنئے : میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اگر معاشرتی اور معاشی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا لازمی طور پر ہے تو ٹھیک ہے ،آپ اس کو اجازت دے دیجیئے! صرف معاشرے پر آپ بات نہیں کر رہے ، اگر لوگ یہ ضرورت سمجھیں کہ ایک عورت دو مردوں سے تین مردوں سے چار مردوں سے تعلقات رکھے تو آپ اس کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے،کیوں؟ کیونکہ آپ معاشرے کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر رہے ہیں ،آپ فیصلہ دیتے ہیں رواج ،اقدار اور اسلامی روایات کے اوپر، تو اسلامی روایات پر اگر آپ کمپرومائز کر رہے ہیں کہ آپ عدل کےبغیر بھی اجازت دے رہے ہیں تو پھر اس کامطلب ہے واضح طور پر قرآن وسنت کی رہنمائی میں نہیں، بلکہ جو اپنی معاشرتی اقدار ہیں، ان کی راہ نمائی میں کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہےکہ معاشرتی اقدار اور قرآن وسنت دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چلنا ضروری ہے ۔ ‘‘ ایضاً کیاہم ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنے کی گستاخی کر سکتےہیں کہ ایک مرد کو چار شادیوں کی اجازت معاشرہ نے دی ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ایک قرآنی حکم کے مقابلہ میں نہایت بے حیائی ،بےشرمی اوربےغیرتی پر مشتمل ایک لچر،واہیات اور خود ساختہ مغربی معاشرتی ضرورت پیش کر کے ایک حکم الہٰی کی تضحیک کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتاہے ؟ کیا کوئی مسلمان اس کا تصور کر سکتا ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیاکہا جائے کہ موصوف دانش گاہ افرنگ سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ان کی ہم نوائی میں وہ قرآن وسنت کے صریح احکام کی مخالفت سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔