کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 123
(۱)موصوف ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے عائلی قوانین کے بہت بڑے مداح، حامی اور داعی ہیں اور نعوذ باللہ وہ انہیں قرآن مجید کے عائلی قوانین کا تسلسل سمجھتے ہیں، چنانچہ خود فرماتےہیں :
’’عائلی قوانین کا تعلق معاشرے سے ہے اور جو قرآن کریم اور سنت میں بھی عائلی قوانین ہیں اور وہ اس وقت کی معاشرتی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر جہاں جہاں ضرورت تھی۔ بنیادی طور پر قبل اسلام بھی وہ چیزیں موجود تھیں :نکاح ،طلاق ،وراثت یہ سب چیزیں قبل از اسلام موجود تھیں، اس میں جہاں جہاں زیادتی تھی، خاص طور پر عورتوں کے ساتھ، اس میں قرآن کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ان کی اصلاح کر دی گئی ۔ ‘‘ ایضاً
کیا موصوف سےکوئی پوچھ سکتا ہے کہ ان کے بقول جب قرآن وسنت کے ذریعے عائلی قوانین میں قابل اصلاح امور کی اصلاح کر دی گئی تو اب ڈاکٹر فضل الرحمٰن اور ان کے جانشین خالد مسعود صاحب کو اس میں مزید تبدیلیوں کی ضرورت کیوں پیش آ گئی ؟ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصلاح طلب امور کی اصلاح میں کوئی کمی رہ گئی تھی ؟ جس کے لیے چشم بددور ان کومیدان میں کودنا پڑا؟ اگر نہیں تو کیا یہ قرآن وسنت سےبغاوت اور ان کی توہین وتنقیص کے مترادف نہیں ؟
(۲) ان کے ہاں چار شادیون پر قدغن ہونی چاہیے کیونکہ یہ حکم الٰہی ’’اگر عدل نہ کر سکو۔‘‘ کے خلاف ہے ۔ چنانچہ وہ ارشاد الہٰی : ’’پس نکاح کرو دو دو، تین تین اور چارچار اور اگر عدل نہ کر سکو تو ایک ہی نکاح کرو۔ ‘‘ کی صریح نص اور ’عدل کر سکو‘ کےمعنی و مفہوم میں تحریف کرتےہوئے کہتےہیں:
’’قرآن مجید میں چار تک شادیاں کرنے کامطلب یہ ہے کہ بیوی کی تعداد کو محدود کرنا اور پھر اس طرح مزید محدود یہ کہہ کر قرآن مجید میں کر دیا گیا کہ عدل کرو۔ میرے خیال میں سب سے پہلے عدل شرط ہے ، عدل یہ نہیں کہ آپ بیویوں کو نان نفقہ دے دیں ۔ ‘‘ ایضا ً
موصوف قرآن کریم کی مندرجہ بالاآیت’’اور عدل نہ کرسکو۔‘‘ کا جو مفہوم بیان فرما رہے ہیں، اگر ان کو ناگوار خاطر نہ ہو تو کیا ہم ان سے پوچھ سکتےہیں کہ یہ معنی کس آیت ،حدیث میں آیا ہے ؟ یا ،صحابہ کرام ،آئمہ تفسیر اور محقق علماء میں سے کس نے بیان کیا ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیا یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، ائمہ اسلاف کی تحقیق سے