کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 122
خالص دینی گرانے سےتعلق رکھتے تھے اور استعمال کی چمک و دمک سےمتاثر ہو کر انہوں نے اپنے دین و مذہب ، معاشی ، معاشرتی اور اسلامی تاریخ سے بغاوت کی تھی، ٹھیک اسی طرح خالد مسعود صاحب بھی وہی پس منظر رکھتے تھے اور بعینہٖ اسی طرح وہ بھی امریکا ، کینیڈا اور برطانیہ کی برکت سے دین و مذہب سےباغی ہو گئے ، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں :
’’اصل میں ان ( یعنی ڈاکٹر فضل الرحمٰن، کا تعلق ہزارہ سے تھا، ان کے والد مولانا شہاب الدین دیوبندی تھے اور مولانا محمود الحسن اور بڑے جید علماء کے ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا شہاب الدین اہل حدیث مکتبہ فکر کے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کےبہت قائل تھے، اہل حدیث ان کو بہت مانتے ہیں ۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی مذہبی تعلیم مدرسے سے نہیں، بلکہ ان کے والد صاحب سے تھی جو لاہور میں اس وقت درس تھے ۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ، ان کی علمیت میں کوئی شک نہیں ہے ،جب وہ آکسفورڈ گئے تھےتو سنا ہے کہ شیروانی اور داڑھی کےساتھ ہاتھ میں مولوی وں والی چھڑی لےکر گئے تھے، لیکن وہاں جا کر کلین شیو ہو گئے تھے ۔ ‘‘ ( سنڈے میگزین کراچی: ۲۸/ اکتوبر)
گویا جس طرح وہ ایک عالم دین کے بیٹے، دین دار، ظاہری شباہت ، داڑھی ،ٹوپی، شیروانی اور چھڑی وغیرہ کےساتھ آکسفورڈ گئے اور ان کے فلسفہ استشراق سےمتاثر ہو کر کلین شیو ہو گئے ، موصوف خالد مسعود صاحب نے بھی ان کی تقلید کی ۔ مگر اے کاش کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو پاکستان سے نکال دیا گیا اور موصوف اکیلے اور بے یارومددگار ان کی فکر و فلسفہ کے وارث رہ گئے اور تحریک الحاد و استشراق کی بھاری بھر کم ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر آ گئی۔ ظاہر ہے ان کو اس کا جس قدر قلق و افسوس ہوا ہو گا وہ خود ہی بہتر سمجھ سکتےہیں ، چنانچہ مندرجہ بالااقتباس میں انہوں نے اسی درد و کرب کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے جس طرح اپنی دینی، مذہبی اور فکری تبدیلی اور اس میں انقلاب کا ذکر کیا ہے اور جس طرج انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کےعلم وفضل کی تعریف و توصیف کی ہے ، اس کےبعد اس کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ان کے عقائد و نظریات سے بحث کی جائے ۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کےچند ایک اچھوتے عقائد و نظریات اور دین و مذہب ، مسلم تاریخ اور مسلم تحریکوں کے بارے میں باغیانہ جذبات کا بھی تذکرہ کردیاجائے :