کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 121
عہدہ سے ریٹائر ہو گئے ۔ اس عرصہ میں موصوف مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ گئے، اور اس میں سب سے اہم کردار امریکا کی ’کمیٹی ان سٹڈی آف مسلم سوسائٹی‘ کی ممبر شپ نے ادا کیا ،چنانچہ موصوف خود فرماتے ہیں کہ ’’اس سلسلہ میں دو چیزیں میرے کیریئر میں بہت اہم ہیں،امریکا میں سوشل سائنس کی ایک ریسرچ کونسل ہے ، ان کے مختلف گروپ، مختلف کمیٹیاں، مختلف فیلڈ سے ہوتی ہیں ، انہوں نے ایک نئی کمیٹی بنائی تھی،کمیٹی ان سٹڈی آف مسلم سوسائٹیز ۔عام طور پر امریکا میں جس سٹڈی کا رجحان ہے وہ Area سٹڈیز ہیں اور اسلام ان میں سے مڈل ایسٹ وغیرہ میں اہم پارٹ ہوتاہے ۔ یہ پہلی کمیٹی تھی جس کا فوکس مسلم سوسائٹی تھا۔ اس کمیٹی کی مجھے ممبر شپ کی آفر دی گئی ، یہ ممبر شب پانچ سال کی تھی۔ اس ممبر شپ کی وجہ سے ہر سال دو دفعہ امریکا جانا ہوتا تھا ،اس کے علاوہ مختلف اسلامی ممالک میں جانا ہوتا تھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری دانشورانہ ڈویلپمنٹ اس فیلڈ میں زیادہ ہے کیونکہ یہ سب عالم فاضل لوگ تھے ۔ پہلا دھچکا مجھے اسی وقت لگا تھا جب میں میکگل پہنچا تھا،وہاں جا کر ساری مسلم تاریخ اکائی کے ساتھ ، نہ کہ ٹکڑوں میں تقسیم کرکے پڑھی۔ اسلامی تاریخ کے فوج ،معاشی، اسلامی پہلو تمام بڑھے تو وہ جو دھچکا تھا کہ ہم کس طرح اسلامی تاریخ کو سمجھتے ہیں ۔ ‘‘ ( ایضاً) گویا امریکا اوران کی اس کمیٹی کی ممبر شپ کی برکت سے موصوف کی آنکھیں کھل گئیں اور اب تک امت مسلمہ کے بارہ میں وہ جس خوش فہمی میں مبتلا تھے ،وہ امریکی استعمار کی مرتب کردہ امت مسلمہ کی تاریخ ، فوجی ،معاشی اور اسلامی تصورات کی غلطی ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی اور وہ اپنے استاذ اور مربی ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی نظریہ الحاد اور ان کی سلسلہ کی الحادی خدمات کے معترف ہو گئے اور سمجھنے لگے کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا وجود جس طرح ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھا، ایسے ہی پاکستان میں جاری الحادی تحریک کے لیے بھی از حد ضروری تھا ، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں : ’’ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کےباہر جانےسے پاکستان کو نقصان ہوا،انہیں ۱۹۶۹ء میں پاکستان سے نکال دیاگیا، پہلے وہ برطانیہ گئے،پھر شکاگو یونیورسٹی میں ۔ ‘‘ (ایضاً ) ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے ان کے جوڑ بیٹھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ جس طرح وہ ایک