کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 120
میں داخلہ کی پیشکش کی اور داخلہ کا خط بھیجا ۔ حسن اتفاق کیئے یا سوئے اتفاق ! کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے فلسفہ الحاد و استشراق نے اپنا کام دکھایا اور موصوف کےدل و دماغ کو ’فرسودہ مذہبی‘ تصورات سے پاک کر دیا گیا ۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اس فکر و فلسفہ میں مزید رسوخ پیدا کرنے کے لیے آپ کو کینیڈا میں مانٹریال مکیگل یونیورسٹی بھیج دیا گیا، وہاں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کےبعد واپس تشریف لائے تو ان کےاستاذ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی جگہ خالی ہو چکی تھی اور ضرورت تھی کہ ان کی مسند پر ان کی فکر و سوچ کاانسان براجمان ہو ۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کو اپنے استاذ موصوف کی خدمات کے تسلسل کوجاری رکھنے کی خدمت پر مامور کر دیا گیا ۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی صحبت، تربیت اور کینیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی کے مستشرق اساتذہ کی محنت برآئی تو اب ڈاکٹر خالد مسعود وہ نہیں تھا جس نے جھنک کے ایک دین دار گھرانے میں نشوونما پائی تھی اور جس کے قلب وجگر اوردل و دماغ میں انگریز اور استعمال کی نفرت کا بیج بویا گیا تھا۔ اب اس کے دل میں انگریز اور استعمال کے خلاف نفرت کے بجائے محبت و الفت کےجذبات تھے، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں: ’’بہت ساری چیزوں کے بارےمیں اب میری رائے بدل گئی ہے ۔ لیکن آزادی کاتصور، آزادی کے لیے محنت اورخاص طور پر استعمال کے ساتھ نفرت اور استعمال کے ساتھ جو ایک تعلق ہے ، وہ جب تک میں باہر نہیں گیا، اس وقت تک استعمار کی نفرت کا تعلق رہا، لیکن جب خود جا کر استعماری معاشرے کو دیکھا تو پتا چلا کہ کسی حد تک ہمارا اپنا تصور محدود تھا اورہم پوری طرح مغربی معاشرے کوسمجھ نہیں پائے ۔‘‘ ( سنڈے میگزین ، کراچی ، ۲۸/ اکتوبر ۲۰۰۷ء) موصوف کی جب برین واشنگ ہو گئی اور وہ مسلم معاشرے کے بجائے استعمال اور استعماری معاشرہ کو حق و صواب سمجھنے لگے توان کے لیے اندرون و بیرون ملک ہر طرح کی ترقیات اورمناصب کےدروازے کھل گئے ،چنانچہ وہ اس دوران نائیجریا گئے، ایک سال تک یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں رہے ، اور ۱۹۷۹ء میں اسکالر شپ پر امریکا چلےگئے اور وہاں کئی ایک یونیورسٹیوں میں لیکچر دیئے، اسی طرح دوبارہ وہ لیکچرار کے طور پر پیرس بھی گئے ،مگر اس پورے عرصہ میں ’ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ ‘ اسلام آباد میں ملازمت کرتے رہے اور ۱۹۹۹ء میں اس