کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 119
میں شائع ہوا ۔ جناب خالد مسعود اپنے والد کے بڑے بیٹے ہیں ، انکے دوسرے بھائی محمود شام ان سے چھوٹے ہیں ، ان کا آبائی تعلق انبالہ سے ہے ۔ آپ کے والد ماجد جناب صوفی شیر محمد صاحب مرحوم ایک نیک دل اور پرانے احراری تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے لاہور اور پھر جھنگ میں انہوں نے سکونت اختیار کی ۔ متحدہ ہندوستان میں انہوں نے انگریز دشمنی کی پاداش میں جیلیں کاٹیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی ، ہماری معلومات کے مطابق ،وہ جمعیت علمائے اسلام اور تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ رہے اور رزق حلال کی خاطر انہوں نے جھنگ میں ’ارسطو دواخانہ‘ کے نام سےایک مطب قائم کیا اور زندگی بھر اسی سے وابستہ رہے ۔ جس طرح موصوف صوفی شیر محمد مرحوم انگریز دشمن تھے اور استعمار کو مسلمانوں کا سب سے بڑا حریف اور دشمن سمجھتے تھے ، اسی طرح انہوں نے اپنی اولاد کی بھی یقیناً انہی خطوط پر تربیت کرنا چاہی ہو گی ۔ مگر چونکہ انگریز کی عیاری اورمکاری مشہور ہے اورجس طرح شیطان اللہ کے نیک بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا توان کی اولادوں سے بدلے لیتا ہے، اسی طرح شیطان کی معنوی اولاد انگریز کی بھی یہی روش رہی ہے کہ جن کے سامنے ان کا بس نہیں چلتا ، وہ اپنا بدلہ ان کی اولادوں سے لیتا ہے ۔ افسوس کہ یہی کچھ موصوف صوفی شیر محمد مرحوم کی اولاد کے ساتھ بھی ہوا ۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد مسعود کو ان کے والد ماجد نے ابتدائی طور پر اسکول پڑھایا، ازاں بعد وہ ان کو دارالعلوم دیوبند بھیجنا چاہتے تھے، مگر افسوس کہ اب بیٹا باپ کی فکر و سوچ کی مخالف سمت جا چکا تھا ۔ چنانچہ خالد مسعود صاحب نے جھنگ کےایم بی ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ پرائیویٹ طور پر منشی فاضل کیا ، گھریلوں معاشی حالات مزید تعلیم جاری رکھنے کے متحمل نہ تھے تو اسلامیہ ہائی اسکول میں ٹیچز کی نوکری مل گئی، اسی دوران ایف اے اور بی اے کیا ، امتحان میں اچھے نمبر آ گئے تو اسکالر شپ مل گیا۔ مزید تعلیم کےلیے لاہور کا رخ کیا، ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج اسلامیہ اور اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی ادب میں داخلہ کا امتحان دیا مگر افسوس ! کہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، مجبوراً اسلامیہ لاہور سے ایم اے اسلامیات کیا ۔ اسی دوران مشہور ملحد اور صدر ایوب کے نفس ناطقہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے ، جب بعد میں عیسائی ہو کر مرا، اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کراچی