کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 115
ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’علم قیافہ اور علم فراست‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور پر یہ چیزیں ان کے مقاصدپورا کرتیں ۔
جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی …أھون البلیتین… کے طور پر ھنیئًا مریئًابنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی علم فراست کو ان میں سے اُٹھا لیا۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری کی کتاب المغازي میں باب قتل حمزۃ بن عبد المُطلب[1] میں آیا ہے بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک، دانا اور صاحب ِفراست ہوتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کے عبیداللہ بن عدی غزوۂ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر ے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں ، وہ یہیں کہیں رہتا ہے اور اس سے شہادتِ حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہِ راست معلوم کریں گے۔[2] ہم پوچھتے پوچھتے آگے بڑھے تو ہمیں ایک آدمی نے بتایا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے اور دیکھنے سے ایسے لگتا ہے جیسے کہ پانی کی کوئی سیاہ مشک ہو۔ [3]ہم جلدی ہی اس کے پاس جا پہنچے، ہم نے سلام کہا اور اس نے سلام کا جواب دیا۔
عبید اللہ نے کہا: وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟
عبید اللہ نے جب ان سے یہ سوال کیا تو اس وقت اُنہوں نے ڈھاٹے سے اپنا سر اور منہ لپیٹا ہوا تھا اور وحشی ان کی صرف آنکھیں یا پاؤں ہی دیکھ سکتا تھا۔ وحشی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: نہیں ، البتہ اتنا یاد پڑتا ہے کہ مکہ میں عدی بن خیار نے ابوالعیص کی بیٹی اُمّ قتال نامی