کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 113
کی سزا، قانونِ حدود اور بعض دیگر اسلامی احکام کا مذاق اُڑایا گیاہے۔علماے کرام کو بطور خاص نشانۂ تضحیک بنایا گیا ہے۔ کیا نظریۂ ضرورت کے تحت اس کا توڑ کرنے کے لئے فلم بنانے کی اجازت بھی دے دی جائے گی؟ فنی اعتبار سے فلم اور ویڈیو میں ویسے بھی کچھ فرق نہیں ۔
۴۔ ٹی وی پر فحاشی، عریانی، بے حیائی اور اسلامی اقدار کی تضحیک بلاشبہ کبائر میں سے ہے لیکن اکبر الکبائر تو شرک ہے جسے ٹی وی دیگر کبائر کی طرح دن رات بڑی تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ کیا ’ملّی مجلس شرعی‘ کے واجب الاحترام علماے کرام ٹی وی پر قبرپرستی اور شرک کے خلاف بھی آواز اُٹھاناپسند فرمائیں گے یا نہیں ؟
ہماری گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ ملّی مجلس شرعی کے واجب الاحترام علماے کرام کو اپنے فتویٰ پر نظرثانی کرنی چاہے تاکہ موہوم اُمیدوں کے حصول میں کتاب و سنت کے واضح احکام پامال نہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’مریض کا علاج حرام دوا سے نہ کرو۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ)
کم از کم جو علماے کرام تصویر کو ہر صورت میں حرام سمجھتے ہیں ، اُنہیں تو یہ ’دوا ‘ ’مریض‘ کے لئے تجویز کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ویسے بھی انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں سعی اور جدوجہد کا مکلف ہے، نتائج کا نہیں تو پھر حدود اللہ کو پامال کیوں کیا جائے؟
عمل بالحدیث کی فکر رکھنے والے واجب الاحترام علماے کرام سے ہماری خاص طور پر مؤدبانہ گزارش ہے کہ اُنہیں
اوّلاً: اپنی کراہت کا اظہار ٹی وی پروگراموں میں شریک ہوکر نہیں بلکہ شریک نہ ہوکر کرنا چاہیے۔
ثانیاً: کتاب و سنت کے چشمہ صافی کو ہر طرح کی آمیزشوں اور آلائشوں سے پاک صاف رکھنا اور آنے والی نسلوں تک اسے من و عن پہچانا آپ کا مشن ہے، اس میں کوئی کوتاہی اور لغزش نہ ہونے پائے۔
ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے علماے کرام کو سیاست کی دلدل میں پھنسنے کے بعد اب ٹی و ی کے فتنے سے محفوظ رکھے۔آمین!وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین