کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 112
لینے میں کیا حرج ہے؟ ٹی وی کے بارے میں اوّلاً تو ہمیں یہ تسلیم کرنے میں ہی تامل ہے کہ یہ خیر وشر کا آلہ ہے۔ اس میں اگر کوئی خیر کی بات ہے تو اتنی ہی ہے جتنی شراب، جوا، سود، رشوت، بے حجابی اور موسیقی وغیرہ میں ہے۔ ثانیاً، لمحہ بھر کے لئے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ٹی وی خیر و شر دونوں کا آلہ ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ علماے کرام نے ٹی وی کے ’خیر‘ کے پہلوؤں پر تو گفتگو فرمائی ہے مگر اس کے شر کے پہلوؤں پر گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی، حالانکہ بیلنس شیٹ تو منفی مثبت دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تیار ہونی چاہیے۔ بلاشبہ محترم حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ٹی وی کے شر کے پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش فرمائی جو بالکل درست اور قابل تحسین تھی لیکن افسوس، محترم حافظ صاحب نے آخر میں بہ کراہت ٹی وی پر آنے کی اجازت دے کر اپنے ہی دلائل پر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔ کاش وہ ایسا نہ فرماتے! آخر میں ہم واجب الاحترام علماے کرام کی خدمت میں چند سوالات پیش کرناچاہتے ہیں ۔ ہماری درخواست ہے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان پربھی غور فرما لیاجائے: ۱۔ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نضربن حارث نے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے ٹی وی کلچر (گانا بجانا، فحاشی اور بے حیائی) کا آغاز کیا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا توڑ کیسے فرمایا؟ ۲۔ تبلیغی جماعت سے بعض اختلافات کے باوجود کسی پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کے بغیر حیران کن حد تک،اعلیٰ تعلیم یافتہ،متوسط تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ؛ تینوں طبقوں میں پوری دنیا کے ممالک میں منظم ترین دعوت اور تبلیغ کے کام میں ہمارے لیے کوئی سبق ہے یا نہیں ؟ ؎ سبب کچھ اور ہے جسے تو سمجھتا ہے زوال بندہ مؤمن کا بے زری سے نہیں ۳۔ چند سال قبل ایک فلم ’خدا کے لیے‘ بنائی گئی جس میں حجاب،داڑھی، عورتوں کے حقوق،مرتد