کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 111
کے الفاظ یہ ہیں : ’’ٹی وی پر گانے، موسیقی اور تصویر جیسی منکرات حرام ہیں لیکن اسلامی کلچر، تجارتی اور سیاسی خبریں جن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں ، جائز ہیں ۔‘‘
بلا شبہ اس فتویٰ سے ٹی وی پر دینی پروگراموں میں شرکت کی تائید ہوتی ہے لیکن ہماری گزارش یہ ہے کہ اس فتویٰ کے بعد اس پر عمل درآمد کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا جائے۔ دائمی فتویٰ کونسل کا یہ فتویٰ ۱۴۱۱ہجری میں شائع ہوا، اب ۱۴۲۹ہجری کا اختتام ہے۔ ممکن ہے ۱۴۱۱ہجری میں ٹی وی پر صرف اسلامی لیکچر، تجارتی اور سیاسی خبریں ہی دی جاتی رہی ہوں لیکن اٹھارہ سال بعد آج کی صورتِ حال کیا ہمارے علماے کرام کی نظروں سے مخفی ہے؟ آج کل جو کچھ ٹی وی پر آرہا ہے، وہ ہے تو بہرحال اسی فتویٰ کا مرہونِ منت۔
دوسری مثال اپنے گھر کی لے لیجیے: وطن عزیز پاکستان میں جماعت ِاسلامی، ’ملّی مجلس شرعی‘ کے قیام سے پہلے ہی بقول محترم مولانا عبدالمالک صاحب، الیکٹرانک میڈیا میں حصہ لینے کو جائز قراردے چکی ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ جماعت ِ اسلامی کے واجب الاحترام علماے کرام نے کتنی مدت پہلے یہ فیصلہ فرمایاتھا لیکن آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ جماعت کے روزنامہ’جسارت‘کی اشاعت ِخاص بسلسلہ اجتماعِ عام ۲۴ تا۲۶/اکتوبر۲۰۰۸ء کے صفحہ ۳۲ پر ’عرق مہزل لاثانی‘ اور’ گیسٹووینا سیرپ لاثانی‘ نیز صفحہ ۶۸ پر ’وگورین چلڈرن سیرپ‘ کی تشہیر کے لئے روایتی ماڈل گرلز کی بے حجاب تصویریں موجود ہیں ۔ یہ تصویریں برضا و رغبت ٹی وی پر آنے کی اجازت دینے کے فیصلہ کی مرہونِ منت نہیں تو اور کیا ہیں ؟
کیا عمل بالحدیث کا دعویٰ رکھنے والے علماے کرام اپنے ہاں بھی ایسی افسوسناکِ صورت حال دیکھنا پسند فرمائیں گے؟
کوئی فیصلہ کرتے وقت ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بند دروازہ کھولنا بہت آسان ہے، لیکن اسے مزیدکھلنے نہ دینا یا اسے دوبارہ بند کرنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔
6. خیر و شر کی بحث میں بکثرت دی جانے والی مثال کا حوالہ بھی مذاکرہ میں دیاگیا کہ ٹی وی تو محض ایک آلہ ہے، اس سے خیر اور شر دونوں کا کام لیاجاسکتا ہے۔ لہٰذا اس سے خیر کا کام