کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 109
3. اِضطراری کیفیت کے سلسلہ میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر سرکاری دستاویزات پر تصاویر کی مثالیں بھی دی گئی ہیں ۔ ہماری ناقص رائے میں ان مثالوں سے اضطرار کا جواز اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ اوّلاً یہ تصویریں بنوانے کے لیے قانون کا اس قدر جبر موجود ہے کہ ان کے بغیر کسی بھی انسان کا کاروبارِ زندگی چلانا ممکن نہیں ۔ ثانیاً اس مسئلہ کو کوئی دوسرا متبادل حل بھی نہیں ، لہٰذا فرد اس ’جرم‘ سے بری الذمہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹی وی پر آنے والے علماے کرام پر واقعی کوئی ایسا جبر موجود ہے کہ ٹی وی پر آئے بغیر ان کے لیے دعوت کا کام ناممکن ہوگیا ہو یا پھر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہ ہو؟ 4. ایک بڑی پُرکشش اور دل فریب دلیل یہ بھی دی گئی ہے: ’’کیا صرف تصویر کی حرمت کی خاطر پوری قوم کو لادین عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے؟‘‘… ’’بدکاری، فحاشی اور عریانی کی دعوت کے جواب میں علماء اس لیے خاموش بیٹھے رہیں کہ تصویر حرام ہے؟‘‘… ’’توپ کامقابلہ تلوار سے اور کلاشنکوف کا مقابلہ میزائل سے ممکن نہیں لہٰذا نئی نسل کو لادینیت کی یلغار سے بچانے کے لیے جدید ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ہمارے واجب الاحترام علماے کرام نے یہ دلیل اس وثوق اور پُرزور طریقے سے دی ہے گویا ۱۶ کروڑ عوام کا قبلہ درست ہونے میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ صرف علماے کرام کے ٹی وی پر آنے کی ہے۔ جیسے ہی علماے کرام ٹی وی پر قدم رنجہ فرمائیں گے، پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بن جائے گا۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے ٹی وی پروگراموں میں علماے کرام کی شرکت سے حالات کی اصلاح کا نتیجہ تو قطعاً غیریقینی ہے۔ البتہ حرام کو حلال کرنے کا گناہ سو فیصد یقینی ہے یعنی إثمھا أکبر من نفعھا ! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض الفاظ اور فقرات واقعی جادو کا سا اثر رکھتے ہیں ، مخاطب پر اثر انداز ہونے کی اپنے اندر بے پناہ قوت رکھتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ عملی زندگی میں ان کے نتائج بھی ویسے ہی خوبصورت اور خوش نما ہوں ۔ آج سے کم و بیش نصف صدی قبل دینی جماعتوں نے ایسے ہی پُرکشش اور خوبصورت