کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 108
اضطرار کا جواز کیسے پیدا کیا جاسکتاہے ؟ ثانیاً: حلال چیز میسر نہ ہونے کی وجہ سے جان کاخطرہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک فرد کی مثال کو پوری قوم یا ملک پر منطبق کرنا کسی طرح بھی درست معلوم نہیں ہوتا، کجا یہ کہ پوری دنیا میں مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ملت ِاسلامیہ پر اسے منطبق کیا جائے۔ اگر یہ درست بھی ہو تو غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار کے پریشان کن تنزل اور انحطاط کے باوجود کیا واقعی پاکستان سے اسلام کے مکمل طور پر ختم ہونے اور مٹنے کے آثار موجود ہیں ؟ چلئے لمحہ بھر کے لئے مان لیجئے کہ پاکستان سے مکمل طور پراسلام کے مٹنے کے آثار موجود ہیں (لا قدَّر اللہ أبدًا)… تو پھر بھی کیاپاکستان سے اسلام کا وجود ختم ہونے کے ساتھ ہی پوری دنیا سے اسلام کا وجود مٹ جائے گا؟ کیا ہسپانیہ سے اسلام کے ختم ہونے کے ساتھ اسلام ساری دنیا سے ختم ہوگیا؟ ہرگز نہیں ، تو پھر کیا پاکستان میں موجودہ صورتِ حال کو اضطراری قرار دینا واقعی درست ہوگا؟ ثالثا ً: حرام چیز کااستعمال بقدرِ ضرورت ہو۔ گویا اضطراری حالت میں بھی حرام کو حلال کرنے کی اجازت بالکل محدود اور عارضی ہے، غیر محدود اور مستقل نہیں ۔ کیا ٹی وی پربکراہت آنے کی اجازت دینے والے واجب الاحترام علماے کرام نے اس عارضی مدت کا تعین فرما لیاہے جس میں وہ قوم کی اصلاح کرلیں گے۔ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کا تدارک کرلیں گے اور اس کے بعد ٹی وی پر آنا بند کردیں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ فرد کے اضطرار کو پوری قوم کے اضطرار پر قیاس کرکے حرام چیز کو مستقل حلال کرنے کا اجتہاد ہماری سمجھ سے بالکل ہی بالاتر ہے۔ 2. ٹی وی پربہ بکراہت آنے کے حق میں سورۃ النحل کی آیت نمبر ۱۰۶ کا حوالہ بھی دیاگیا ہے جس میں ایمان پر مطمئن رہتے ہوئے کلمہ کفر کہنے کی رخصت دی گئی ہے۔ یہاں بھی جان بچانے کے لئے عارضی طور پر کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے۔ کیا اس آیت ِکریمہ سے واقعی ایک حرام چیز کو مستقل حلال کرلینے کا جواز پیدا ہوتا ہے جبکہ جاں کے خطرے کاپہلو بھی محل نظر ہو؟