کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 107
نتائج کے اعتبار سے اس قدر اہم اور حساس ہے کہ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینا ازبس ضروری ہے۔
جہاں تک تصویر کی حرمت کا تعلق ہے، احادیث ِ مبارکہ میں بیان کی گئی شدید وعید کے پیش نظر بے غبار اور قابل اطمینان بات یہی ہے کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے، ویڈیو کی ہو یا ٹی وی کی، پردۂ سکرین پر ہویا کاغذ پر، متحرک ہو یا غیر متحرک۔ قطعی طور پر حرام ہے۔ مذاکرۂ علمیہ میں شریک تمام علماے کرام نے اتفاقِ رائے سے دینی پروگراموں کے لیے ٹی وی پر آنے کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض علماے کرام نے برضا و رغبت اور بعض نے اسے بکراہت جائزقرار دیاہے، دونوں صورتوں میں نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے۔
مذاکرۂ علمیہ میں شریک واجب الاحترام علماے کرام کوہم تین گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
1. وہ گروہ جو پہلے سے ہی اس فتویٰ پر عمل کررہاہے مثلاً جماعت ِاسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے بعض علماے کرام۔
2. وہ گروہ جس نے مذاکرہ میں برضا ورغبت ٹی وی پروگراموں میں شرکت کا اظہار فرمایا۔
3. وہ گروہ جس نے بہ کراہت ٹی وی پروگراموں میں شرکت کو جائز قرار دیا۔
پہلے دونوں گروہوں کا معاملہ تو ایک جیسا ہے جن کے موقفکی ہم کسی صورت میں تائید نہیں کرسکتے، البتہ تیسرے گروہ کے دلائل کا تجزیہ پیش خدمت ہے:
1. ٹی وی پروگراموں میں بہ کراہت شرکت کرنے والے علماے کرام اصلاًاس بات سے متفق ہیں کہ یہ شرکت عام حالات میں جائز نہیں ، البتہ جب اضطراری کیفیت پیدا ہوجائے تو بہ کراہت ایسا کرنا جائز ہے۔ یہ جواز قرآنِ مجید کی اس آیت ِمبارکہ سے پیدا کیاگیا ہے:
﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمِ عَلَیْہِ﴾ ( البقرۃ:۱۷۳)
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے خنزیر یا حرام چیز کھانے کی اجازت بعض شرائط کے ساتھ دی ہے :
اوّلاً : حلال چیز میسر نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ وطن عزیز میں علماے کرام پر دعوت اور تبلیغ کے تمام جائز راستے بند ہوچکے ہیں ؟ اگر ایسا نہیں (اور واقعی نہیں ) تو پھر اس آیت ِمبارکہ سے
[1] والدین کے بعض حقوق کو اخلاقی قرار دے کر اسے اچھا مسلمان بننے سے مشروط کردینا درست طرزِ فکر نہیں بلکہ والدین کی نافرمانی کو شریعت نے کبیرہ ترین گناہ قرار دیا ہے، اور مسلم حکومت کا یہ فرض ہے کہ معاشرے میں گناہوں کی روک تھام کرے، نہ کہ اس حق کو محض اخلاقی قرار دے کر آخرت پر اس کا معاملہ چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی کیفیت والدین سے حسن سلوک کی بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت سامنے آنے پر اولاد کو اپنا رویہ بدلنے کی عملاً تلقین کی۔ غرض شرعی احکام کو اخلاقی حقوق قرار دے کر اس کو حکومتی کنٹرول سے نکالنا درست نہیں۔ اسلام میں منکر کی روک تھام تو حکومت سے بڑھ کر ہر مسلمان پر حسب ِاستطاعت فرض ہے۔حسن مدنی