کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 105
دونوں طرف گنجائش موجود ہو، زیادہ سختی سے کام نہیں لینا چاہیے اور دلائل کے ساتھ ساتھ ملی مصالح اور ضروریات کا لحاظ بھی رکھنا چاہیے۔ ہم نے ایک جگہ پڑھا تھا اور اپنے ایک مضمون میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ مزارعت (یعنی بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینا) کو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ناجائز کہتے ہیں اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہ اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ اس پر معروف حنفی محدث وفقیہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے دونوں طرف کے دلائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا تھاکہ دلائل کے حوالے سے حضرت امام صاحب رحمہ اللہ کاموقف قومی ہے، لیکن چونکہ مصلحت ِعامہ صاحبین کے قول میں ہے، اس لیے فتویٰ صاحبین کے قول پر دیاجاتا ہے۔ اسکرین کے مسئلہ پر ہمارے خیال میں مصلحت ِعامہ کا تعلق دونوں طرف ہے۔ ایک جانب عام مسلمانوں کو بے حیائی، عریانی، گانے بجانے اور فحاشی کے ماحول سے بچانے کا جذبہ ہے اور مسلم معاشرہ میں دینی ماحول کا تحفظ مقصود ہے جو ظاہر ہے کہ بہت مبارک جذبہ ہے اورمفتیانِ کرام کی دینی ذمہ داریوں میں سے ہے، لیکن دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا اِزالہ، اسلامی عقائد اور احکام کا دفاع اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات کا تحفظ بنیادی ہدف ہے اور یہ بھی ہماری ملی اور دینی ضروریات میں سے ہے۔ عام مسلمانوں کی مصلحت ومفاد کا تعلق دونوں طرف ہے اور دلائل بھی یقینا دونوں طرف موجود ہیں ، اس لیے دلائل اور ترجیحات کی بحث میں پڑے بغیر ہم اربابِ دانش اور اصحابِ فتویٰ سے یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ دونوں طرف سے دلائل اور مصالح عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا متوازن اور باوقار راستہ نکالنے کے لیے اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں کہ ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘ یہ آج کے دورمیں ہمارے اربابِ علم وفضل کی اجتہادی صلاحیت وبصیرت کا امتحان ہے اور ہمیں اُمیدہے کہ ہمیشہ کی طرح ہمارے آج کے مفتیانِ کرام بھی اُمت کی علمی وفکری راہنمائی کا کوئی متوازن اور عملی راستہ نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ان شاء اللہ !