کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 104
مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کا موقف بھی یہی ہے جیسا کہ ماہنامہ ’نور علیٰ نور‘ فیصل آباد نے شوال المکرم ۱۴۲۹ھ کے شمارے میں اس مسئلے میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس کے آخر میں اس کے خلاصہ کے طور پر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ خود یوں فرماتے ہیں کہ
’’خلاصہ یہ ہے کہ ٹی وی اور وی سی آر اُن آلات میں سے نہیں ہیں جو صرف لہو ولعب یا گانے بجانے اور کسی گناہ کے لیے بنائے گئے ہیں بلکہ ریڈیو، ٹیلی فون، تار کی طرح آواز اور شکلوں کو دور تک پہنچانے کے لیے ہیں ، خواہ ان سے اچھے کاموں میں یہ کام لیا جائے یا برے کاموں میں ، جائز میں یا ناجائز میں ۔ ان کا حکم آلاتِ لہو ولعب اور گانے کے آلات کا نہیں ہو سکتا کہ جس پر نیک کاموں کی بے حرمتی بنتی ہو۔ ان میں ہر مباح کام بھی جائز اور نیک کام بھی جائز ہے۔ قاعدہ فقہیہ یہ ہے کہ جس کے استعمالات بعض حلال، بعض حرام ہوں یا کچھ حلال اور بہت کچھ حرام بھی ہوں تو حلال صورت کی وجہ سے اس کا رکھنا، مرمت کرنا، خرید کرنا، فروخت کرنا سب جائز ہے۔ اسی قاعدہ سے خشخاش کی کاشت، افیون کی بناوٹ، ان کا خریدنا، فروخت کرنا اور بلانشہ کی دواؤں میں استعمال سب جائز ہوگا لیکن نشہ کی چیز کا استعمال حرام ہے اور باقی جائز ہے۔ ایسے ہی یہاں لہو ولعب، گانے بجانے اور سب ناجائز کام حرام وگناہ ہیں ، باقی مباحات، طاعات اور عبادات سب جائز ہیں ۔‘‘
جبکہ اُستاذ العلماء حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کے بارے میں ان کے ایک شاگرد اور آزاد کشمیر کے معروف مفتی حضرت مولانا مفتی محمد رویس خان صاحب آف میرپور نے ایک بار بتایا کہ حضرت کاندھلوی رحمہ اللہ سے ٹی وی اسکرین کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے فرمایا کہ
’’میاں ! یہ چاقو ہے۔ اس سے خربوزہ کاٹو گے تو جائز ہے اور کسی کا پیٹ پھاڑو گے تو ناجائز ہے۔‘‘
اس کا مطلب واضح ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک سینما یا ٹی وی اسکرین کا حکم تصویر اور فوٹو سے مختلف ہے اور وہ اس کے جواز یا عدمِ جواز کی بات ماہیت کے حوالے سے نہیں ، بلکہ مقاصد کے حوالے سے کرتے ہیں جیسا کہ خود تصویر کے بارے میں بھی حضرت امام محمد رحمہ اللہ کے بقول احناف کا ذوق یہی معلوم ہوتا ہے۔
اس لیے ہماری طالب ِعلمانہ رائے میں اس قسم کے اجتہادی مسائل میں ، جہاں