کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 103
رکھتی ہیں ۔ تصویر سے مراد جاندار کی تصویر ہے، خواہ انسان کی ہو، خواہ حیوان کی، البتہ مکانات کے نقشے اور درختوں کی تصویریں ناجائز نہیں ہیں ۔‘‘
جبکہ دوسرے فتوے میں تصویر کے بارے میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ :
’’تصویر بنانے کا حکم جداگانہ ہے اور تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کا حکم جداگانہ ہے۔ تصویر بنانے اور بنوانے کا حکم تو یہ ہے کہ وہ مطلقاً حرام ہے، خواہ چھوٹی تصویر بنائی جائے یا بڑی، کیوں کہ علت ِممانعت دونوں میں یکساں پائی جاتی ہے اور علت ِممانعت مضاہاۃ لخلق اللہ ہے اور تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر تصویر چھوٹی اور غیر مستبین الاعضاء ہوتو اس کو ایسے طور پر رکھنا کہ تعظیم کا شبہ نہ ہو، جائز ہے یا ضرورت کے وقت استعمال کی جائے جیسے سکہ کی تصویر، توجائز ہے۔ باقی بڑی تصویریں بلاضرورت استعمال کرنا یا ایسی ضرورت میں رکھنا کہ تعظیم کا شبہ ہو، ناجائز ہے۔‘‘
لیکن جب حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے سینما کی اسکرین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اُنہوں نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ
’’سینما اگر اخلاق سوز اور بے حیائی کے مناظر سے خالی ہو اور اس کے ساتھ گانا بجانا اور ناجائز امر نہ ہو تو فی حدذاتہ مباح ہوگا، لیکن ہمارے علم میں کوئی فلم کسی نہ کسی ناجائز امر سے خالی نہیں ہوتی۔‘‘
جب کہ ایک اور فتویٰ میں ان کا ارشادِگرامی یہ ہے کہ
’’ سینما میں بہت سی باتیں غیر مشروع شامل ہو جاتی ہیں ، مثلاً گانا بجانا، غیر محرم صورتیں ، رقص، عریاں مناظر اور ان باتوں کی وجہ سے اس کی مجموعی کیفیت کہ لہوولعب اور تہیجِ شہواتِ نفسانیہ اس کا ادنیٰ نتیجہ ہے۔ ان وجوہ سے سینما دیکھنا ناجائز ہے، بعض صورتوں میں حرام اور بعض میں مکروہ ہے۔‘‘
تصویر اور اسکرین دونوں کے بارے میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ وہ تصویر اور اسکرین دونوں کو الگ الگ سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسکرین پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا اور اگر دیگر ممنوعہ اُمور سے خالی ہو تو اسکرین’ فی حدذاتہ مباح‘ کا درجہ رکھتی ہے۔
ہماری ایک اور برگزیدہ علمی شخصیت اور جامعہ اشرفیہ لاہو رکے سابق صدر مفتی حضرت