کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 102
موضوع پر باقاعدہ ایک ادارہ قائم کر کے عالمی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ اس سیمینار کی ایک نشست میں مجھے ’مہمانِ خصوصی‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ اس موقع پر ایک نوجوان نے بڑے تند وتیز لہجے میں سوال کیا کہ مولوی صاحبان کا کیا ہے، وہ تو کل تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو بھی حرام کہتے رہے ہیں اور اب کوئی مولوی لاؤڈ اسپیکر کے بغیر نماز نہیں پڑھاتا۔
میں نے اس کے جواب میں عرض کیاکہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو کبھی کسی مولوی نے حرام قرار نہیں دیا، البتہ نماز میں اس کے استعمال میں اختلاف رہا ہے اور اس میں بھی مولوی صاحبان کا کوئی قصور نہیں ہے، اس لیے کہ مسئلہ تکنیکی نوعیت کا تھا جس کی وضاحت کے لیے علماے کرام نے اصحابِ فن سے رجوع کیا۔ اب جن اصحاب فن نے یہ بتا یا کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بولنے والے کی اصل آواز ہوتی ہے، ان کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے علماے کرام کے ایک گروہ نے جواز کا فتویٰ دے دیا اور جن کو یہ بتایا گیا کہ اصل آواز نہیں ہوتی، اُنہوں نے عدمِ جواز کا فتویٰ دے دیا۔ اس لیے اصل اختلاف تو اصحابِ فن کا تھا جو مفتیانِ کرام کے فتووں میں اختلاف کا باعث بن گیا، اس میں مولوی صاحبان کا کیا قصور ہے؟
ٹی وی اسکرین کے بارے میں اختلاف بھی میری طالب علمانہ رائے میں اسی نوعیت کا ہے۔ جن اصحابِ علم کی رائے یہ ہے کہ یہ تصویر ہے، ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک یہ حرا م ہی ہوگی، لیکن جو حضرات اسے تصویر نہیں سمجھتے، وہ اس کے جواز کی بات کریں گے۔
ہم اس سلسلے میں زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے چند فتاویٰ کا حوالہ دینا چاہیں گے جن کے نزدیک ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی نقل وحرکت پر تصویر کا اطلا ق نہیں ہوتا۔ کفایۃ المفتي جلد نہم میں تصویر اور اسکرین دونوں کے حوالے سے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں جن کا اہل علم کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم ان میں سے تین چار کا ذکر کریں گے :
جہاں تک تصویرکا تعلق ہے، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا موقف وہی ہے جو جمہور علما کا ہے، چنانچہ ایک فتوے میں وہ فرماتے ہیں کہ
’’تصویر کھینچنا اور کھنچوانا ناجائز ہے، خواہ دستی ہو یا عکسی۔ دونوں تصویریں ہیں اور تصویر کا حکم
[1] فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ