کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 101
مفتیانِ کرام کے لیے دلائل اور مصالح کے حوالے سے دونوں طرف گنجائش موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کم وبیش اسی طرح کی بحث ہے جیسا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے جواز اور عدمِ جواز پرکم وبیش نصف صدی تک بحث جاری رہی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر جب نیا نیا آیا تو ہمارے علمی حلقوں میں یہ بحث چل پڑی کہ اس کا نماز میں استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ اور جو مقتدی صرف لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر امام کی اقتدا کر رہا ہے، اس کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ اس اختلاف کی بنیاد اس نکتہ پر تھی کہ لاؤڈ اسپیکر سے آنے والی آواز امام کی اصل آواز ہے یااس کی صداے بازگشت ہے۔ اگر اصل آواز ہے تو نماز درست ہے اور اگر وہ اس سے مختلف نئی آواز ہے تو اس آواز پر امام کی اقتدا کرنے والے مقتدی کی نماز درست نہیں ہے۔ اب جن مفتیان کرام کی تحقیق یہ تھی کہ امام کی اصل آواز لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بلند اور وسیع ہو کر سامعین تک پہنچ رہی ہے، ان کے نزدیک نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز تھا اور جن کی تحقیق میں لاؤڈ اسپیکر کی آواز امام کی آواز سے مختلف تھی، وہ عدمِ جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ خود ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ہمارے بزرگ اور محترم اور مخدوم حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ عدمِ جواز کے قائل تھے اور جمعتہ المبارک کے اجتماع میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے سے منع کیا کرتے تھے، لیکن ان کے نائب کے طور پر ۱۹۷۰ء میں جب میں یہاں آیا تو میں نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ تک حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے ایک درمیان کی راہ نکالی کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ ساتھ دوتین مکبرین بھی کھڑے کر دیتے تھے، لیکن میرے خیال میں اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے رفتہ رفتہ وہ بھی ختم ہو گئی۔ ہمارے تبلیغی جماعت کے حضرات ابھی تک رائے ونڈ کے اجتماع میں نماز کے دوران لاؤڈ اسپیکر استعمال نہیں کرتے، لیکن عمومی طور پر اب کم وبیش ہر جگہ لاؤڈ اسپیکر کا نماز میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک لطیفے کی بات ذکر کرنا بھی شاید مناسب نہ ہوکہ چند سال قبل مانسہرہ (ہزارہ) میں ’سائنس اور مذہب‘ کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا جس کا اہتمام ہمارے فاضل دوست پروفیسر عبدالماجد صاحب نے کیا تھا جو مذہب اور سائنس کے درمیان ڈائیلاگ کے