کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 100
وہیئت تبدیل کر دی جائے تو جائز ہے، ورنہ نہیں لیکن مولانا احمد علی سہارنپوری موطاامام محمد رحمہ اللہ کے حوالے سے احناف کا موقف امام محمد رحمہ اللہ کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں : ’’ ہم اس قول کولیتے ہیں کہ اگر تصویر بسترپر یا چٹائی پر یا تکیے پر ہو جس کا احترام نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں جو تصویر سیدھی کھڑی کی گئی ہو یا پردے پر لٹکی ہوئی ہو تو وہ مکروہ ہے۔ یہ قول حضرت امام ابوحنیفہ کا ہے اور ہمارے یعنی احناف کے عام فقہا کا قول بھی یہی ہے۔‘‘ بخاری شریف کے حنفی شارح حضرت علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے بھی ’عمدۃ القاری‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے۔ دلائل کی تفصیل میں جائے بغیر ہم نے یہ چند حوالے صرف اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے پیش کیے ہیں کہ تصویر کی حرمت پر اُصولی طور پر پوری اُمت کا اجماع واتفاق موجود ہونے کے باوجود مختلف شکلوں پر اس کے اطلاق کے حوالے سے اختلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلا آ ٓرہاہے اور یہ اختلاف دو حوالوں سے ہے: ۱۔ ماہیت کے حوالے سے کہ کاغذ یا کپڑے پر نقش تصویر پر حرمت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟ ۲۔ مقصد کے حوالے سے کہ جو تصویر احترام کے پہلو سے خالی ہے اور اس کا ادب واحترام نہیں کیا جاتا، وہ حرمت میں شامل ہے یا نہیں ؟ جب کہ اس سلسلہ میں احناف کا موقف یہ ہے کہ وہ ادب وحرمت کے پہلو سے فرق ملحوظ رکھتے ہیں اور جس تصویر میں اَدب وحرمت کا پہلو نہیں پایا جاتا، وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ فقہاے متقدمین کے درمیان پائے جانے والے اس واضح اختلاف کی موجودگی میں بھی اس معاملے میں اس قدر سختی کی کوئی گنجائش ہے کہ عدمِ جواز کے قول پر ’حرمت ِقطعیہ‘ کا حکم صادر کر دیا جائے۔ 1.اس مسئلہ میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی نقل وحرکت پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک تکنیکی اور فنی بحث ہے اور بہرحال اجتہادی مسئلہ ہے جس میں