کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 99
’’خدا سے ڈرو اپنی اولاد میں انصاف کرو۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا بنت ِیزید بن سکن انصاری عورتوں کی نمائندہ کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے کہا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردوں اور عورتوں دونوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ ہم عورتیں بھی ربّ ِ جل جلالہ پر ایمان لائی ہیں ، لیکن خدا کی راہ میں جان کی بازی تمام فضیلت اور ثواب کے ساتھ صرف مردوں پر واجب کی گئی ہے کہ اگر وہ فتح کریں تو اُن کو ثواب اور مالِ غنیمت ملتا ہے اور اگر قتل کردئیے جائیں تو مقامِ شہادت پر فائز ہوتے ہیں ۔ ہم عورتیں جب ہمارے شوہر جنگ کے میدان میں ہوتے ہیں تو گھر اور بچوں کی رکھوالی اور گھریلو کاموں کی بجاآوری میں مشغول ہوتی ہیں ، کیا ہم بھی جہاد کے ثواب میں مردوں کے برابر شریک ہوسکتی ہیں ؟‘‘ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کی طرف رُخ کرکے فرمایا کہ اُنہوں نے کس قدر اچھا سوال کیا ہے۔پھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ دوسری عورتوں سے بھی جن کی طرف سے تم نے یہ بات کہی ہے، میرا یہ قول پہنچادینا کہ گھریلوفرائض کی انجام دہی، بچوں کی پرورش اور شوہر کی خدمت عورتوں کی طرف سے خدا کی راہ میں جہاد شمارکیا جاتا ہے۔‘‘[1]
خواتین کے معاملے میں عدل وانصاف کے بارے میں بہت ساری احادیث کا ذکر ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ خواتین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کرنے میں ہم پر مرد غالب رہتے ہیں ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ایک دن مختص فرمادیجئے۔ آپ نے ان کے لیے ایک دن متعین فرمادیا، ان سے ملے، وعظ فرمایا اور احکام دئیے۔اس موقع پر آپ نے خواتین سے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے کسی کے اگر تین بچے فوت ہوگئے تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ایک خاتون نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر دوہی بچے فوت ہوئے تو آپ نے فرمایا: اگر دو بھی فوت ہوئے تب بھی۔[2]مذکورہ بالادوحدیثوں پر اگر غورکیا جائے توجہاں چند ایک نہایت ہی اہم باتوں کی وضاحت ہوتی ہے وہاں ان کے متعلق ہمیں توجیہات وتعلیماتِ نبوی سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔
اسی طرح خواتین کے لیے وراثت کا حق رکھنا، اُن کو تعلیم دلوانا، ان کی اچھی تربیت کرنا سب