کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 98
رہے، ان میں سے قرآنِ مجید کی شہادت کے مطابق ایک بڑا فریضہ قیامِ نظامِ عدل بھی تھا۔ عدل وانصاف کے اعلیٰ او ر برتر اُصولوں کی حکمرانی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی ہمیشہ جواب دہی کے لیے تیار رہتے تھے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سلوک سے نادانستہ طور پر کسی شخص کو ایذا پہنچ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنا بدلہ لینے کے لیے فراخ دلانہ پیش کش فرماتے۔ ایک مرتبہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے دوران میں ایک شخص کے چہرے پر جو اپنا حصہ لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیزے کا زخم لگ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اسے بدلہ لینے کی پیش کش کی مگر اس نے کوئی بدلہ نہ لیا۔[1]
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی کمر پر،جواِدھراُدھر کی باتیں کر کے لوگوں کو ہنسا رہا تھا، ٹھوکا دیا جس پر اس نے بدلہ لینے کی خواہش ظاہر کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر آگے کردی۔ مگر اس نے کہا: ’’میں برہنہ تن تھا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قمیص پہنے ہوئے ہیں ۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص اُٹھادی، اس نے آگے بڑھ کر مہر نبوت کو چوما اور کہا میں تو صرف یہ چاہتا تھا۔‘‘[2]حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں تشریف لاتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں :
’’اے لوگو!اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کبھی درّہ مارا ہے تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے، وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے۔ اگر میں نے کسی کو برابھلا کہا تو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ اس سے انتقام لے سکتا ہے۔ اگر میں نے کسی کا مال چھینا ہے تو میرا مال حاضر ہے، وہ اس سے اپنا حق لے سکتا ہے۔اور تم میں سے کوئی یہ اندیشہ نہ کرے کہ اگر کسی نے انتقام لیا تو میں اس سے ناراض ہوں گا ،یہ بات میری شان کے لائق نہیں ۔‘‘[3]
اولاد کے ساتھ عدل کے بارے میں حدیث میں آتا ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے اُن سے کہا: میرے لڑکے کو فلاں غلام بخش دو، اس پررسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناؤ۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ بن بشیرنے یہ سارا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی اولاد ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں !فرمایا:پھر میں ناحق پر گواہ نہیں بن سکتا۔[4]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فاتَّـقوا اللہ واعدلوا بین أولاد کم)) [5]