کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 97
پہنچا دو۔ اس کے بعد بنوسلیم نے آکر شکایت کی کہ اسلام لانے سے قبل صخر نے ان کے چشمہ پر قبضہ کرلیا تھا، اب چونکہ وہ اسلام لاچکے ہیں ، لہٰذااُن کا چشمہ اُنہیں دلایا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صخر کو بلا کر فرمایا کہ جب کوئی قوم اسلام قبول کرلیتی ہے تو وہ اپنے جان ومال کی مالک ہوجاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چشمہ واپس کرادیا۔ ان دونوں معاملات میں فیصلہ صخر کے خلاف ہوا، حالانکہ فتح طائف کا سہرا اِنہی کے سر تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خدمات کے باوجود عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔[1] ٭ قرآن اور سنت ہی وہ اُصول ہیں جن کی اتباع ان پر واجب ہے۔ نیز اس مجموعہ معاہدات کی شق نمبر ۴۲ کا منشا یہ ہے کہ غیرمسلموں کو قانونی حقوق حاصل ہیں ، چنانچہ قرآنِ حکیم میں یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر ادیان کے پیروکاروں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَإِن جَآؤُوکَ فَاحْکُم بَیْْنَہُم اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَإِن تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَن یَضُرُّوکَ شَیْْئًا وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ٭ وَکَیْْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِندَہُمُ التَّوْرَاۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَلِکَ وَمَا اُوْلَـئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْن﴾[2] ’’اگر یہ تمہارے پاس (اپنے مقدمات لے کر ) آئیں تو تمھیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہار ا کچھ بگاڑ نہیں سکتے،اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔اور یہ تمھیں کیسے حَکَم بتاتے ہیں جبکہ ان کے پاس تو راۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔‘‘ اس آیت میں مذکور ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرمائیں گے، جب وہ آپس میں اپنے جھگڑوں کا فیصلہ نہ چکا سکیں ۔ چنانچہ عہد ِرسالت میں مدینہ کے باشندے اپنے جھگڑے اور دعوے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں عدل ادارۂ نبوت کے ذمہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سمیت جو مختلف فرائض سپرد