کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 96
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفرپر روانہ ہوتے توعبداللہ ابن اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کو بھی اپنا نائب یا امیر مقرر فرمایا کرتے اور وہ نابینا تھے۔[1]دورِ مکی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا اہتمام فرمایا کہ ایسے افراد تیار کئے جائیں جو اسلامی مملکت کے سیاسی، انتظامی اور مالی اُمور بحسن و خوبی چلاسکیں ، جبکہ حصولِ اقتدار کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اسلامی مملکت کا قیام عمل میں لائے اور مسلمانوں کے درمیان باہمی بھائی چارہ قائم کردیا۔ پھر یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین عرب سے معاہدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچ کر مختلف اقوام سے متعدد معاہدے کئے جن کے مجموعے کو میثاق مدینہ بھی کہہ دیا جاتا ہے، اس میثاق کی ۲۴ اور ۴۴ دونوں دفعات عدل پر مشتمل ہیں ۔ بعض لوگوں نے اسے دنیا کا پہلا تحریری دستوربھی قرار دیاہے۔[2]جس میں سیاسی فوجی اور مالی اُمور شامل ہیں ۔ معاہدہ کرنے والے سب فریق ان اُمور کے پابند تھے۔
اب ہم ان معاہدات کا تنقیدی مطالعہ پیش کرتے ہیں جن میں اصلاح کے بہت سے پہلو شامل ہیں اور ان میں سے ایک نظامِ عدل کی اصلاح بھی ہے۔ اس معاہدے کی رو سے وہ تمام اُصول اور ضابطے منسوخ قرار پاگئے تھے جن پر پہلے نظامِ عدل کی اساس تھی اور ایسے نئے اُصول اور ضابطے میسر آگئے جو انسانیت کیلئے پہلے سے زیادہ اطمینان بخش تھے۔ڈاکٹر لوتھر نے بڑی عقیدت کے ساتھ ایسے نئے اُصولوں کے بارے میں کہا ہے:
’’اسلام نے بڑی سلطنتوں اور مستقل تہذیبوں کو تہہ وبالا کرکے نفوسِ اقوام کو نئی ترکیب دی اور ایک مکمل جدید دنیا یعنی دنیاے اسلام تعمیر کی جس کا اثر تمام نوع انسان پر پڑکر رہے گا۔‘‘[3]
٭ فتح مکہ کے بعد صرف طائف کا قبیلہ ایسا تھا جس نے اطاعت قبول نہیں کی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا محاصرہ کیا مگر چند روز بعد بعض وجوہ کی بنا پر محاصرہ اُٹھا لیا۔ صخر کے ایک رئیس کو جب معلوم ہوا تو اس نے خود طائف کی حصار بندی کی اوراُنہیں مصالحت پر آمادہ کیا۔ اس واقعہ کے بعد مغیرہ بن شعبہ ثقفی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ صخرنے ان کی پھوپھی کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صخر کو بلا کر حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر