کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 95
مقدمات پیش ہوں گے اور مجھے قضا کا تجربہ ہے، نہ علم۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تیری زبان کو راہِ راست کی توفیق عطا فرمائے گا اور تیرے قلب کو ثبات بخشے گا۔‘‘ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو اس منصب کا پورا پورا اہل ثابت کیا جو عین جوانی میں ان کے سپرد کیا گیا تھا۔[1] معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کواسی غرض سے یمن روانہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((کیف تقضي؟)) ’’تم فیصلہ کیسے کروگے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا: کتاب اللہ کے مطابق، پھر سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق…الخ۔‘‘[2] یمن کے نواح میں چار اور فیصلہ کرنے والے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائے۔ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ صنعاء کے لیے، مہاجری بن اُمیہ رضی اللہ عنہ کندہ کے لیے، زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ حضر موت کے لیے اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری کو زبید، زمعہ، عدن اور سواح کے لیے روانہ فرمایا۔ اسی طرح عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ میں عامل مقرر فرمایا، ان کی عمر اس وقت بیس برس کے لگ بھگ تھی۔ عہدۂ امارت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مہاجر کو عامل مقرر فرماتے تو ہمراہ کسی انصاری کو بھی روانہ فرماتے۔ ان اصحاب کے انتخاب کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی علمیت اور کردار کا جائزہ ضرور لیا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں روانگی سے پہلے ان عمال کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک انٹر ویو لیتے جنہیں عملاً بطورِ قاضی بھی کام کرنا ہوتا تھا۔[3] عاملینِ زکوٰۃ کی ایک طویل فہرست کتب ِ سیر میں ملتی ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ وقتاًفوقتاً یہ لوگ بھی جھگڑے چکا دیا کرتے تھے۔ بہرحال قاضی یاجج کا عہدہ بعد کے زمانے میں امارت یا عامل سے الگ کیا گیا۔ ابن خلدون نے قضا کو خلافت کے وظائف(functions)میں شمار کیا ہے اور اسے صرف خلیفہ کے لیے سمجھا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے اُمورِ خلافت کے پھیلاؤ کے باعث یہ منصب بطورِ عہدہ اپنے پورے اختیار کے ساتھ حضرت ابودردانہ انصاری رضی اللہ عنہ اور عویمربن ثعلبہ انصاری رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں مقرر فرمایا۔دراصل یہ تقسیم کار کی ایک صورت تھی۔[4]