کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 93
کرے۔ تنگی اور احسان محسوس کئے بغیر بلا مطالبہ ان کو دیتا رہے خصوصاً جب اللہ تعالیٰ نے رِزق کی وسعت د ی ہو۔ بلکہ والدین کے ساتھ احسان کرنا زیادتی ٔرزق اور طوالت ِعمر کا سبب ہے، جیسا کہ مشہور احادیث میں موجود ہے۔
٭ اسی طرح بیٹا جب محسوس کرے کہ والدین اس کے مال سے توقع رکھتے ہیں اور وہ بلاحد اس میں سے لینا چاہتے ہیں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ حکیمانہ راستہ اختیار کرے اور ان کے ساتھ نیکی کرے۔ ان کو غصہ دلانے کا سبب نہ بنے، کیونکہ دانا شخص کبھی وسیلوں کا راستہ ختم نہیں کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:((لا یجزي ولد والدًا إلا أن یجدہ مملوکًا فیشتریہ،فیعتقہ)) (صحیح مسلم:۱۵۱۰) کوپیش نظر رکھے۔
’’کوئی شخص بھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کرسکتا، اِلا یہ کہ وہ اپنے والد کوغلام پائے تو خرید کر اس کو آزاد کردے۔‘‘
٭ نیک بیٹے کو چاہئے کہ وہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا تلاش کرے، جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سائل نے ان سے پوچھا: ما حق الوالدین علی الولد؟ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا:’’لو خرجت من أھلک ومالک ما أدیت حقَّھما‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:۸/۳۵۶)
’’اگر تو اپنے مال اور اہل و عیال سے بھی نکل جائے تو تب بھی تو نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘
٭ حسن بصری رحمہ اللہ سے جب والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے سوال کیا گیا، تو اُنہوں نے فرمایا: ((أن تبذل لھما ما ملکت وأن تطیعھما في ما أمراک بہ إلا أن یکون معصیۃ)) (البروالصلۃ للحسین المروزي عن ابن المبارک ص۷، مصنف عبد الرزاق :۵/۱۷۶، رقم۹۲۸۸)
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ تو اپنی ملکیت میں موجود ہر شے کو ان کے لئے خرچ کردے، اور ان کے ہرحکم کی اطاعت کرے، سواے معصیت کے۔‘‘
٭ امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ مرسل سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم جانتے ہو کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے بھی افضل نفقہ کون سا ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ اوراس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹے کا اپنے والدین پر خرچ کرنا۔(کتاب العیال:۱/۱۶۱، رقم۲۶)
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو اور ہمارے والدین کو معاف فرمائے جس طرح کہ اُنہوں نے بچپن میں انتہائی محبت واہتمام سے ہماری پرورش کی۔ آمین !