کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 92
لینے سے اس کوضرر نہ پہنچے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لاضرر ولا ضرار)) اس قول کو حنابلہ نے المُعتمد میں اختیار کیاہے اورانکے ہاں اسی کے مطابق فتویٰ دیا جاتاہے۔
٭ لیکن اگر سابقہ اقوال اور ان کے دلائل کو بنظر عمیق دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تیسرا قول اپنی شروط و قیود سے پہلے قول کے موافق ہے۔ کیونکہ اس قول میں اُنہوں نے باپ کے لئے بیٹے کے مال سے لینے کے مطلق جواز کو چند شرائط کے ساتھ مقید کردیا ہے اور بیٹے کو ضرر نہ پہنچنے کی قید لگائی ہے…!
٭ جمہورکے قول سے واضح ہوتا ہے کہ باپ بلاضرورت اپنے بیٹے کے مال سے نہیں لے سکتا۔ اس قول میں جمہور نے طرفین (باپ اور بیٹا دونوں ) کی رعایت رکھی ہے، باپ کا حق بوقت ِضرورت نفقہ حاصل کرنے کے ذریعے محفوظ ہے اور بیٹے کا حق اس کے مال کی حفاظت کے ذریعے محفوظ ہے۔ دونوں کے حقوق اپنے اپنے مقام پر محفوظ ہیں ۔ اس قول میں خاندانی مشکلات کا حل اور ہر فریق کو اپنے ایمان کی زیادتی اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر قناعت کرنے کی دعوت ہے۔ اس قول سے دل مطمئن ہوجاتا ہے اور اس میں مذکور حِکم واَسرار سے سینہ کھل جاتا ہے اور عقل پرسکون ہوجاتی ہے۔
٭ اس بنا پر اگر باپ بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنانے یا اپنی ضرورت سے زیادہ مال حاصل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بیٹا اس مطالبے کو مسترد کردیتا ہے تو وہ بیٹا نافرمان اور گناہگار نہیں ہوگا، کیونکہ بقدرِ ضرورت ان پر خرچ کرکے وہ اپنا فریضہ ادا کررہا ہے اور ان کے حق میں کوتاہی نہیں کررہا۔
٭ یہ ایک پہلو سے ہے، اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ علماے کرام کا اختلاف رحمت ہے۔ مثال کے طور پراگر معاملہ قاضی کے پاس عدالت میں چلا جاتا ہے تو قاضی دلائل، شہادات اور حالات کو سامنے رکھ کر علما کے ان اقوال میں سے کسی اَحسن اور حالات کے موافق قول کو اختیار کرکے فیصلہ دے سکتا ہے۔
٭ باپ کے لئے نصیحت ہے کہ وہ نیکی پر اپنے بیٹے کا تعاون کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ((رحم اللہ والدًا أعان وَلَدَہ علی برّہ)) (رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب العیال:۱/۳۰۶ ، رقم۱۵۰)تاکہ بیٹا بھی اس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ والد کی طرف سے نیکی طبعی امر ہے جبکہ بیٹا اس کا مکلف ہے۔
٭ اس میں بیٹے کو بھی نصیحت ہے کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے پیش آئے، ان کے لئے جود و سخا کے ہاتھ کھول دے اور ان پر خرچ کرنے میں کنجوسی نہ