کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 91
لئے ملکیت ثابت کرنے کے لئے ناکافی ہیں ۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ماں کوباپ کے ساتھ ملحق کرنے میں کون سا مانع ہے؟ حالانکہ علت دونوں کے متعلق ہے،کیونکہ اولاد ماں باپ دونوں کی کمائی ہے، اکیلے باپ کی نہیں ہے۔ اس میں میرا جواب یہی ہوگا کہ علت پر نص صریح آجانے کے بعد میں اس کو بعید خیال نہیں کرتا۔ واللہ اعلم! خاتمہ، حاصل بحث اور اقوال میں ترجیح آخر میں مذکورہ مسئلہ میں اہل علم کے اقوال، دلائل، مباحثے اور جوابات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے اور ان کے تین اقوال ہیں : 1. پہلا قول: باپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ سواے ضروری نفقہ کے وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنائے۔ یہ قول حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ میں سے جمہور اہل علم کا ہے اور ایک روایت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔ اُنہوں نے نصوصِ قطعیہ اور قواعد ِشرعیہ عامہ سے استدلال کیا ہے جو بیٹے کے لئے اس کے مال کی حفاظت و عصمت کو ثابت کرتے ہیں اور ان دلائل میں سے سرفہرست دلیل آیت ِمیراث اور مالِ غیر کو اس کی رضا مندی کے بغیر کھانے کی حرمت پر دلالت کرنے والی آیاتِ کریمہ اور احادیث ِنبویہ کا عموم ہے اور حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) کو اُنہوں نے ضرورت و حاجت پرمحمول کیا ہے۔ بہرحال دیگر مسائل فقہ کی مانند یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے۔ 2. دوسرا قول :مطلقاً باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جتنا چاہے ،اپنے بیٹے کے مال میں سے لے لے اور اسے اپنی ملکیت بنالے، خواہ اس کو ضرورت ہو یا نہ ہو۔ یہ قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے منقول ہے جن میں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سرفہرست ہیں ۔ اُنہوں نے نصوصِ قرآنیہ اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کیاہے، لیکن ان کی مضبوط ترین دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ((أنت ومالک لأبیک))اور ((إن أولادکم من أطیب کسبکم، فکلوا من کسب أولادکم)) ہے۔ 3. تیسرا قول : یہ قول بھی دوسرے قول کی مانند ہے، لیکن اُنہوں نے دوسرے قول کے اِطلاق کو چھ شرائط کے ساتھ مقید کردیاہے۔ جن میں سے اہم ترین شرط پہلی ہے کہ بیٹے کا مال