کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 90
لأبیک)) ہے۔باقی لوگوں کے لئے حرمت ِمال کا حکم اپنی اصل پرہی باقی ہے۔‘‘ ٭ البتہ حنابلہ کے ہاں ایک قول جواز کا بھی پایا جاتاہے، لیکن اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا۔ اس قول جواز کے لئے حدیث ((أنت ومالک لأبیک))کے عموم سے استدلال کیا جاتاہے کہ اس جگہ ((لأبیک))سے مراد ’اصل‘ (جڑ)ہے جوخصوصیت ماں اور باپ دونوں کو حاصل ہے۔ اسی طرح سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ، جو پیچھے گذر چکا ہے کہ ماں باپ دونوں بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بناسکتے ہیں ۔ بیٹے (پوتے) کے مال پر دادا کی ملکیت کا حکم حنابلہ کے نزدیک دادا کو باپ کی مانند یہ حق حاصل نہیں ہے، ان کی دلیل وہی ہے جو اُنہوں نے ماں کے لئے اس حق کے عدم جواز پر ذکر کی ہے۔ امام صنعانی رحمہ اللہ سوالیہ انداز اپناتے ہوئے فرماتے ہیں : اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنانے میں کیا ماں ، باپ کی مانند ہے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ نص فقط باپ کے بارے میں وارد ہے اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول: ’’یأخذا الأب والأم من مال ولدھما بغیر إذنہ‘‘ان کی ذاتی رائے ہے، اُنہوں نے ماں کو باپ پر قیاس کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول ((إن أولادکم من أطیب کسبکم فکلوا من کسب أولادکم)) کے عموم میں والدین دونوں کو داخل کردیا ہے۔ (المُحلی: ۸/۱۰۴، و صححہ عنہ) اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اولاد والدین کی کمائی ہے اور حدیث میں بیٹے کے مال سے لینے کی یہی علت بیان ہوئی ہے۔ لیکن لفظ ((أولادکم))عام ہے اور عام اپنی علت پر محصور نہیں ہوتا۔اگر کوئی شخص کہے کہ لفظ ((أولادکم)) میں ضمیرِ انسان ہے، کیا یہ ضمیر مردوں کے ساتھ خاص ہے؟ تو میرا جواب یہی ہے کہ ہاں ! یہ ضمیر مردوں کے ساتھ خا ص ہے جو اُمہات کو شامل نہیں ہے، سواے تغلیب کے اور تغلیب مجاز ہے جبکہ اصل ہی حقیقت ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ بیٹے کے مال کی حفاظت کی جائے اور اس میں کسی غیر کو شریک نہ کیا جائے اور وہ مال کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی دوسرے شخص کو نہ دیا جائے، جیسا کہ باپ کے بارے میں نص وارد ہے۔ لہٰذا سیدنا جابر کا اثر اور حدیث ((من کسبکم))کاعموم ماں کے