کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 89
5. امام ابن حزم رحمہ اللہ کی دلیل پر امام صنعانی رحمہ اللہ کے ردّکا یوں جواب دیا گیا ہے کہ اگرچہ عرفِ عام کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ بیٹے عموماً اپنے والدین کے مشورے سے ہی کام سرانجام دیتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولاد کی اکثریت مکمل آزادی سے اپنے مال میں تصرف کرتی ہے اور اولاد کا آزادی سے اپنے مال میں تصرف کرنا گناہ یا نافرمانی نہیں ہے۔ 6. امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی کلام کہ’’ حدیث ((کل أحد أحق بمالہ))مرسل ہے‘‘ کاجواب یوں دیا گیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک مرسل حدیث حجت ہے ، جیسا کہ کثیر حنابلہ رحمہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ (دیکھئے الکوکب المنیر:۲/۵۷۶، أصول مذھب الإمام أحمد: ص۳۳۳) بیٹے کے مال پر ماں اور دادا کی ملکیت کا حکم اس مسئلہ پر مذاہب ِاربعہ میں سے صرف حنابلہ نے ہی گفتگو کی ہے۔ کیونکہ حنابلہ نے ہی چند سابقہ شروط کے ساتھ باپ کے لئے مباح قرار دیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنا سکتا ہے۔ ایسے ہی امام صنعانی رحمہ اللہ نے حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) پر اپنے رسالہ میں بھی اس مسئلہ پر کچھ گفتگو کی ہے۔ دیگر تینوں مذاہب (جن کے نزدیک بلا ضرورت باپ اپنے بیٹے کے مال سے نہیں لے سکتا) نے ماں کا حکم سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب باپ اپنے بیٹے کے مال سے بلا ضرورت نہیں لے سکتا تو ماں بالاولیٰ نہیں لے سکتی۔ حنابلہ کے ہاں بیٹے کے مال کا مالک بننے کے سلسلے میں ماں کا حکم باپ کے حکم سے مختلف ہے۔ ان کے نزدیک صحیح ترین اور معتمد مذہب یہ ہے جس پر ان کے اصحاب ہیں کہ ماں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ باپ کی مانند اپنے بیٹے کے مال سے کچھ لے۔ (المغنی :۶/۲۹۴، الانصاف:۷/۵۴، المبدع :۵/۳۸۱) ماں کے لئے ملکیت کے عدمِ جواز پربحث کرتے ہوئے امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اموال میں اصل حکم منع ہے (یعنی ایک آدمی کامال دوسرے کو دینا منع ہے) البتہ باپ کے لئے اس حکم کی مخالفت دلالت ِنص کی بنا پر کی گئی ہے اور وہ نص یہ حدیث ((أنت ومالک