کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 88
ہی اولیٰ و اَقرب ہیں ۔ 3. امام صنعانی رحمہ اللہ کا یہ قول کہ اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک))کے نسخ پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے جو ناسخ کے متاخر ہونے پر دلالت کرے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث کا ناسخ اجماعِ اُمت ہے کہ دیت کا ترکہ ورثا میں تقسیم کیا جائے گا جیسا کہ آیت میراث سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دلائل نسخ فقط ناسخ کی تاریخ کے مؤخر ہونے میں محصور نہیں بلکہ اجماعِ امت بھی دلائل نسخ میں سے ایک دلیل ہے۔ 4. امام صنعانی رحمہ اللہ کا یہ قول کہ اس حدیث اور آیت ِمیراث میں جمع ممکن ہے، کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ عموم حدیث کے مطابق جب بیٹے کی زندگی میں اس کا مال اس کے باپ کی ملکیت ہے۔ تو اس کے مرجانے کے بعد اس کی ذاتی ملکیت کیسے ہوسکتا ہے تاکہ اس کو ورثا پر تقسیم کیا جاسکے۔ پھر اگر دادا زندہ ہے، تو بیٹے کا مال درحقیقت دادا کا مال بن جائے گا، کیونکہ اس اُصول کے مطابق دادا، بیٹے کے باپ کے سارے مال کا مالک ہے۔ یہ ایک ایسا تسلسل ہے جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ بلکہ یہ تسلسل بیٹے کی ملکیت کو منفی کردینے والا ہے جب تک کہ اس کا باپ، دادا یا پڑدادا زندہ ہیں اور یہ واضح امر ہے کہ اہل علم میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو اپنے مال کا مالک بنایا ہے اور اسے اپنے والدین پر خرچ کرنے، زکوٰۃ نکالنے، صدقہ کرنے اور جملہ مالی حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٭ اسی طرح اگر بیٹے کی زندگی میں اور موت کے بعد، اس کے مال کی دو مختلف حالتیں ہیں تو پھر بیٹے کی ذات سے متعلق کیا حکم ہے جیسا کہ حدیث ((أنت ومالک لأبیک))میں مال کے ساتھ ذات کا بھی ذکر موجود ہے، کیا وہ بھی مال کی مانند شمار ہوگا؟ واضح بات ہے کہ اہل علم میں سے کوئی ایک بھی اس امر کا قائل نہیں ۔ ٭ اگر جمہور کے پاس فقط آیت ِمیراث ہی دلیل ہوتی تو زندگی اور موت کے بعد بیٹے کے مال سے متعلق مذکورہ تفصیل قابل توجہ تھی، لیکن جمہورکے پاس اس کے علاوہ بھی متعدد دلائل ہیں ، جن کا ذکر گذر چکا ہے۔