کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 87
جمہور کی اس دلیل: حدیث ((کل أحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین))کاجواب یہ حدیث مرسل ہے ۔ اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ حدیث بیٹے کے حق کو باپ کے حق پر ترجیح دینے پر ہی دلالت کرتی ہے، کلیۃً باپ کے حق کی نفی نہیں کرتی یعنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں بیٹا اپنے باپ سے زیادہ حق دار ہے۔ (المغنی:۶/۲۸۸) میں سمجھتا ہوں کہ شاید حدیث ِ مرسل سے ان کی مراد حدیث ِضعیف ہے۔ واللہ اعلم، کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ احادیث ِمرسل کو ضعیف سمجھتے ہیں اور فتو اے صحابی کو اس پر مقدم کرتے ہیں ۔ جمہور (بلاضرورت منع کے قائل) کے دلائل کے ساتھ کئے گئے مباحثے کا جواب 1. امام صنعانی رحمہ اللہ کا یہ قول کہ’’ جمہور کے دلائل غیر محل نزاع میں ہیں ، کیونکہ باپ کسی غیر کا مال نہیں کھاتا بلکہ اپنا ہی مال کھارہا ہوتا ہے‘‘، کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ امام صنعانی رحمہ اللہ کا یہ فہم غیر صحیح ہے اور یہاں غیر ملزوم کو لازم کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس دعویٰ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جائیگا۔ اسی طرح اس آیت ِ کریمہ﴿ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل﴾ (البقرۃ:۱۸۸) میں جمع کے مقابلے میں جمع کالفظ آیا ہے﴿ اَموالکم بینکم﴾ جو مفرد کے مقابلے میں مفرد کا متقاضی ہے۔ یعنی جس طرح سب مل کر دوسروں کا مال باطل طریقے سے نہیں کھا سکتے ، اس طرح کوئی اکیلا شخص بھی کسی دوسرے اکیلے شخص کا مال نہیں کھا سکتا۔ لہٰذا ہم کہیں گے کہ بیٹا باپ کے بالمقابل مفرد ہے اور اس آیت کریمہ کا معنی ہوگا کہ باپ اپنے بیٹے کا مال باطل طریقے سے نہیں کھا سکتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت کریمہ محل نزاع میں واضح نص ہے۔ 2. امام صنعانی رحمہ اللہ کا یہ قول کہ جمہور کے عمومی دلائل کو حدیث ((أنت ومالک لأبیک))خاص کرنے والی ہے، کاجواب یوں دیا گیا ہے کہ بلا شبہ یہ حدیث بسا اوقات اس مفہوم کو خاص کرتی ہے، جیسا کہ گذر چکا ہے کہ جمہور کے نزدیک بھی باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہے، لیکن امام صنعانی کے اس مفہوم کو کہ بیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہے، پر بہر حال دلالت نہیں کرتی، لہٰذا یہ مفہوم ناقابل قبول ہے۔ اس حدیث کے معنی میں جمہور کی ذکر کردہ وجوہ