کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 86
باپ کا ہے۔ دوسرے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بیٹا فوت ہوجائے تو اس کا ترکہ والدین، بیوی، اور بھائیوں میں تقسیم ہوگا۔ بظاہر یہ دونوں احکام مخالف نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ تقسیم وراثت کا حکم بیٹے کی وفات کے بعد ہے، جبکہ پہلا حکم ((أنت ومالک لأبیک))اس کی زندگی کے دوران ہے۔ لہٰذا جب باپ بیٹا دونوں حیات ہوں توبیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہونے کے لئے کون سا مانع موجود ہے۔ لہٰذا اس آیت کریمہ کو بیٹے کی موت جبکہ حدیث ِمبارکہ کو بیٹے کی زندگی پر محمول کیا جائے گا۔ ٭ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے اس قول کہ اگر بیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہوتا تو بیٹے کے لئے اپنے مال سے خریدی گئی لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنا حلال نہ ہوتا، کیونکہ اس آیت ِکریمہ ﴿ إلَّا عَلَی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ﴾ (المومنون:۶) کے عموم سے اپنی مملوکہ لونڈی سے مباشرت کی حلت معلوم ہوتی ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امام صنعانی فرماتے ہیں : اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) میں لفظ ((مالک))کا عموم، مخصوص ہے۔ مال اسم جنس ہے جو مضاف ہے اور یہ عموم کے صیغوں میں سے ہے۔ اس عموم کو اجماعِ اُمت نے خاص کردیا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی زندگی میں اپنے مال سے خریدی گئی لونڈی کے ساتھ مباشرت کرسکتا ہے، اسی طرح بیٹا بیوی کو حق مہر دے کر اس سے نکاح بھی کرسکتا ہے، باوجود اس کے کہ مال حق مہر بھی اس کے باپ کا ہی تھا، کیونکہ یہ امر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں معلوم تھا اور اس کو اس دور میں گوارا کیا گیا ہے۔ عموماً بیٹا شادی کرتے وقت یا لونڈی خریدتے وقت اپنے زندہ باپ سے ضرور مشورہ کرتا ہے۔ لہٰذا جو کام بیٹے نے اپنے باپ کی اجازت اور مشورے سے کیا ہو، وہ بیٹے کے لئے مباح ہے۔ اور اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کی رائے اور مشورے کے خلاف کام کرتا ہے تو وہ نافرمان اور گناہگار ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ باپ کی رضا مندی ہی بیٹے کے لئے اس کے مال کو مباح کردیتی ہے اور اسی بنا پر بیٹا اپنے باپ کے مال میں تصرف کرسکتا ہے۔ (یہاں تک امام صنعانی کا کلام ختم ہوا)