کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 85
(البقرۃ:۱۸۸) ’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقہ سے کھاؤ۔‘‘ کے عموم سے جمہور کے استدلال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 1. جمہور کے دلائل محل نزاع کے بارے میں نہیں ہیں (یعنی ایسے مسئلہ سے متعلق ہیں جن میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں )کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے مال کو باپ کا مال قرار دیا ہے لہٰذا باپ، غیر کا مال نہیں کھاتا بلکہ اپنا ہی مال کھا رہا ہوتا ہے۔ 2. اگر اولاد کے مال اور والدین کے لئے نہی کے عمومی دلائل کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ((أنت ومالک لأبیک)) ان دلائل کی تخصیص کرنے والی ہے۔ یاد رہے کہ جمہور نے ان عمومی دلائل کے باوجود باپ کے نفقہ کو بیٹے پر واجب قرار دینے کی تخصیص کی ہے، بیٹا پسند کرے یا نہ کرے، لیکن باپ کا نفقہ اس پر واجب ہے۔ اسی طرح حدیث ِہندنے بھی ان عمومی دلائل کی تخصیص کی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ ہندنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی کنجوسی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خذي مایکفیک وولدک بالمعروف))(بخاری:۵۳۶۴) تو اتنا لے سکتی ہے جو معروف طریقے سے تجھے اور تیری اولاد کو کافی ہوجائے۔ (رسالہ امام صنعانی رحمہ اللہ : ص۲۷) جمہور علما کی طرف سے اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) کو منسوخ کہنے کا جواب امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دعویٰ نسخ کے لئے ضروری ہے کہ ناسخ کے مؤخر ہونے پر دلیل موجود ہو، جبکہ یہاں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جو ناسخ کے مؤخر ہونے پر دلالت کرتی ہو۔ اور یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نسخ مخفی رہ گیا ہو خصوصاً جب وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں ۔ پھر امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مختلف دلائل میں امکانِ جمع کے باوجود کون سیشے دعویٰ نسخ پر مجبور کررہی ہے؟ جب امام ابن حزم رحمہ اللہ کے لئے دلائل کے مابین جمع کرنا بظاہر مشکل ہوگیا تو اُنہوں نے نسخ کا حکم لگا دیا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہاں جمع ممکن ہے کہ اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) نے فیصلہ کردیا کہ بیٹااور اس کا مال اس کے