کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 84
’’ایک دیہاتی آدمی نے اپنی بیٹی کانکاح کیا، اور اس کے حق مہر پر خود قبضہ کرلیا۔ جب باپ مرگیا تو وہ عورت اپنے بھائیوں سے حق مہر کی رقم کا مطالبہ کرنے لگی، بھائیوں نے کہا: اس کو ہمارے والد نے اپنی زندگی میں ہی اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور عورت نے کہا : مجھے میرا حق مہر چاہئے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: جو چیز تجھے بعینہٖ مل جائے تو اس کی زیادہ حق دار ہے اور جو تیرے باپ نے خرچ کرلیا ہے، وہ تیرے باپ پر تیرے لئے قرض نہیں ہے۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق: ۶/۲۲۱) اس حدیث سے معلوم ہواکہ اس عورت کا حق مہر اس کی اپنی ملکیت ہے، اور اس میں سے باپ نے جو خرچ کرلیا تھا، وہ بقدرِ ضرورت تھا، اور اس کے لئے اس کے باپ پر کوئی قرضہ نہیں ہے، کیونکہ اس کے باپ نے وہ مال ضرورت کے تحت خرچ کیا تھا اور اگر اس عورت کا حق مہر اس کے باپ کے قبضہ کرلینے کے بعد باپ کی ملکیت ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مال کو جمیع وراثت کے ساتھ جملہ ورثا میں تقسیم کرنے کا حکم دیتے اور حق مہر میں سے باقی ماندہ اشیا کو اس عورت کی ذات کے ساتھ خاص نہ کرتے۔ پہلے قول (بلا ضرورت منع ) کے دلائل کا جائزہ [یاد رہے کہ حنابلہ کا قول(تیسرا) یہ ہے کہ چند شرائط پائے جانے کی صورت میں باپ بیٹے کا مال لے سکتا ہے، جبکہ جمہور کا قول (پہلا) یہ ہے کہ بلاضرورت والد کے لئے بیٹے کا مال لینا ممنوع ہے۔ یہاں ایک قول(دوسرا) یہ بھی ہے کہ والد کے لئے ہرصورت میں ، بلاکسی شرط کے لینا جائز ہے، جس کے دلائل کی تردید و توجیہ بھی اوپر گزر چکی ہے۔ مدیر] حنابلہ نے جمہور علما کی رائے اور ان کے دلائل کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے جمہور کی طرف سے قولِ ثانی کے دلائل میں اس امر کی تردید کی ہے کہ ضرورت کے تحت مال لینا جائز ہے۔ یعنی جمہور نے عام حرمت سے والد کی ضرورت کو خاص کردیا ہے تو حنابلہ نے اس عموم کی تخصیص پیدا کرنے کی تردید کی ہے۔چونکہ اس سلسلہ میں سب سے تفصیلی گفتگو امام صنعانی نے کی ہے، لہٰذا مناسب ہے کہ یہاں امام صنعانی کی کلام کو کچھ تشریح ووضاحت کے ساتھ بیان کردیا جائے۔ امام صنعانی رحمہ اللہ اس آیت ِ مبارکہ﴿وَلاَ تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾