کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 83
’’باپ اپنے بیٹے کے مال کازیادہ حقدار ہے جب وہ معروف طریقے سے اس کا ضرورت مند ہو۔‘ (لم أقف علی تخریج ھذا الحدیث) 2. امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ((إن أطیب ما أکل الرجل من کسب یدہ، ووَلدُہ من کسبِہٖ ))کھانے سے متعلق ہے، لہٰذا ہمارے نزدیک باپ کے لئے اپنے گھر یا بیٹے کے گھر سے جو چاہے جب چاہے، کھانا جائز ہے۔ بیع و شرائ، رہن، ہبہ یا ملکیت سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (المُحلی:۸/۱۰۸) امام ابن حزم رحمہ اللہ کی اس تفسیر میں امام صنعانی رحمہ اللہ کی تفسیر کا جواب ہے جس میں امام صنعانی رحمہ اللہ نے لفظ ((أکل))سے مطلقاً ’انتفاع ‘ مراد لیا ہے۔ امام ابن حزم کی تفسیر راجح اور اولیٰ ہے، کیونکہ امام صنعانی کی تفسیر اس اُصول کے خلاف ہے کہ ہر شخص کی ملکیت کا تحفظ کیا جائے۔ 5. ان کی دلیل ان حدیث ((أطع والدیک وإن أخرجاک من مالک))کا جائزہ اس حدیث سے ان کے استدلال کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں مال کی نسبت بیٹے کی طرف کی گئی ہے، باپ کی طرف نہیں ۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ ((وإن أخرجاک من مالک))ہیں ، ((وإن أخرجاک من مالھما))نہیں ہیں اور سیاقِ کلام سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کے لئے یہاں مبالغہ سے حکم دیا گیا ہے۔ 6. بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ان کے استدلال کا جائزہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ، جابر رضی اللہ عنہ ، انس رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول آثار کی نصوص میں غوروفکر کرنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ باپ بقدرِ ضرورت اپنے بیٹے کے مال سے لے سکتا ہے، اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بقدرِ ضرورت لے سکتا ہے۔ان آثارکے اسی مفہوم کی تائید مصنف عبدالرزاق کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ روایت سے بھی ہوتی ہے، عبدالرزاق اپنی سند کے ساتھ بکر بن عبداللہ مزنی سے روایت کرتے ہیں کہ