کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 82
’’اس حدیث کا عموم تقاضا کرتا ہے کہ باپ خوش حالی و تنگ دستی دونوں حالتوں میں بیٹے کا مال لے سکتا ہے، لیکن فقہاے کرام اس امر پر متفق ہیں کہ باپ خوشحالی کی حالت میں اپنے بیٹے کی رضا مندی کے بغیر اس کا مال نہیں لے سکتا، البتہ تنگ دستی کی حالت میں بقدرِ ضرورت لے سکتا ہے۔‘‘ (شرح مختصر طحاوی فی الفقہ الحنفی القسم الثالث، ص۲۴۱)
د) حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) کے ضعف کا قول
بعض علماے کرام نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیاہے جن میں سے امام شافعی رحمہ اللہ بھی ہیں جنہوں نے نام لئے بغیر ایک جماعت سے اس کا ضعف نقل کیا ہے۔دیکھئے (الرسالہ:ص۴۶۸)
اسی طرح امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کا ضعف نقل کیا ہے۔ (الجامع لا َحکام القرآن:۱۲/۳۱۴)
لہٰذا اس حدیث سے استدلال کرنادرست نہیں ہے۔لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے تمام طرق کو ملا کر قوی ہوجاتی ہے اور اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ( فتح الباری۵/۲۱۱) اور امام عینی رحمہ اللہ نے بھی ’عمدۃ القاری‘ میں اس کو صحیح کہا ہے۔ (۱۳/۱۴۲)
4. حدیث ((ولد الرجل من کسبہٖ، فکلوا من أموالھم))کی دلیل کا جائزہ
اس حدیث سے ان کے استدلال کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے بلکہ دیگر روایات نے اس کے عموم کی تخصیص کردی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن أولادکم ہبۃ اللہ لکم،یھب لمن یشاء إناثا ویھب لمن یشاء الذکور فھم وأموالھم لکم إذا احتجتم إلیھا)) (مستدرک حاکم :۲/۲۸۴، وصحَّحہ ووافقہ الذھبي،سنن البیہقي من طریق الحاکم نفسھا: ۷/۴۸۱)
’’تمہاری اولاد تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہبہ ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے … پس وہ اولاد اور ان کے مال تمہارے لئے ہیں ، جب تم اس کے محتاج ہوجاؤ۔‘‘
’’إذا احتجتم‘‘ کی زیادتی کے ساتھ اس حدیث کی تائید علامہ استروشنی رحمہ اللہ کی روایت کردہ دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الأب أحق بمال ولدہ إذا احتاج إلیہ بالمعروف))