کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 81
ہو اور بیٹے کو اس سے الگ تھلگ کرکے اس پر خود قبضہ کرلینا ہو تو فقہا میں سے کسی سے بھی اس کے جواز کا قول ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم (معالم السنن:۵/۱۸۳)
5. علامہ زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اس حدیث میں متعدد قرائن کی بنیاد پر حقیقی معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ بیٹے کا مال اس کی اپنی ملکیت ہے اور اس مال کی زکوٰۃ اسی پر واجب ہے اور مرجانے کی صورت میں وہ مال اس کی وراثت ہوگا جس کو اس کے ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ جب ان الفاظ کی حقیقت ہی ثابت نہیں ہوسکی تو بوقت ِضرورت باپ کے لئے حق ملکیت کیسے ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ (بدائع الصنائع :۴/۳۰)
اس حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب ہے، حقوقِ ملکیت یا تشریعی احکام کابیان نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا اگر تو اپنے اہل و عیال اور مال سے بھی نکل جائے، تب بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۸/۳۵۶)
ب) نسخ حدیث کا قول
1. امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ آپ تو ہر صحیح حدیث کو ماننے والے ہیں ، پھر اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک))کو کیوں کر ترک کر رہے ہیں ؟ تو اس شخص کو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث کو ترک کرنے سے محفوظ فرمائے۔ ہم ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اِلا یہ کہ وہ منسوخ ہوچکی ہو اور مذکورہ حدیث((أنت ومالک لأبیک)) بلا شک و شبہ آیت ِمیراث سے منسوخ ہوچکی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے والدین، خاوند، بیوی اور اولاد کی میراث کے تفصیلی احکام نازل کردیئے ہیں ۔
2. علامہ شیخ محمد عابد سندھی انصاری رحمہ اللہ مسند امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شرح میں امام عبدالحق اشبیلی سے نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر بزار وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) آیت میراث کے ساتھ منسوخ ہے۔ (المواہب اللطیفۃ (مخطوط) ج۲، لوحہ ۳۴۶)
ج) اس حدیث کے عموم کی تخصیص کا قول
امام ابوبکر رازی جصاص رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :