کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 80
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اور میرا مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں ۔‘‘ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مراد یہ نہیں تھی کہ ان کا مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہے بلکہ ان کی مراد تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ان کی ذات اور مال میں نافذ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ((أنت ومالک لأبیک))کو بھی اسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ (شرح معانی الآثار:۴/۱۵۸، صحیح ابن حبان :۱۵/۲۷۳، مسنداحمد:۲/۲۵۳)
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ان کی مراد یہ تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال میری ذات اور میرے مال میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح کسی شے کا مالک اپنی شے میں اپنے اقوال و افعال کو نافذ کرتا ہے۔ (شرح معانی الآثار:۴/۲۷۷)
3. امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ اجنبیوں والا معاملہ کرنے پر ڈانٹا تھا اور اسے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور قول و فعل میں نرمی برتنے کا حکم دیا تھا، یہاں تک کہ اس پرمال خرچ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا: ((أنت ومالک لأبیک))یعنی بیٹے کی زندگی میں اسکی رضا مندی کے بغیر باپ اسکے مال کا مالک نہیں بن سکتا۔(صحیح ابن حبان:۲/۱۴۳)
4. امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مال پر باپ کے قبضے اور اس مال کو ختم کرنے کے حوالے سے جو شکایت کی تھی، وہ مال کو ختم کرنے کی شکایت باپ پر خرچ کرنے کے سبب ہو، یعنی باپ کا نفقہ جس کا وہ محتاج ہے، زیادہ ہو جس کو اس آدمی کا مال برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہوں ، اِلا یہ کہ وہ سارے کا سارا ختم ہو جائے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی معذرت قبول نہ کرتے ہوئے اپنے باپ کے نفقہ سے دستبردار ہونے کی رخصت نہیں دی اور فرمایا: ((أنت ومالک لأبیک)) یعنی جب بھی تیرے باپ کو ضرورت ہوگی وہ بقدرِ ضرورت تیرے مال میں سے لے سکتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے مال سے لیتا ہے اور جب تیرے پاس مال نہ ہو اور تیرے پاس ہمت ہو تو تجھ پر لازم ہے کہ تو کمائی کرکے اپنے باپ پرخرچ کر۔ اور اگر باپ کا مقصد بیٹے کے مال کو اپنے لئے حلال کرنا