کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 79
کردے؟
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کے والد کو کہا:
’’ تیرے لئے اس کے مال سے اتنا لینا جائز ہے جو تجھے کفایت کرجائے۔ اس نے کہا: یا خلیفۃ الرسول ! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا:((أنت ومالک لأبیک))‘‘
تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ راضی ہوجا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے علاوہ بھی دیگر رواۃ نے منذر بن زیاد سے نقل کیا ہے اور اس میں مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سے نفقہ مراد لیا تھا، اور منذر بن زیاد ضعیف ہیں ۔
(السنن الکبرٰی:۷/۴۸۱، المعجم الأوسط للطبراني:۱/۴۴۸ (۸۱۰) وقال لم یروہ عن إسمٰعیل إلا المنذر)
2. امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) بیٹے کی کمائی پر باپ کی ملکیت کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بیٹے کو چاہئے کہ وہ اپنے مال میں اپنے باپ کے حکم کونافذ کرے، جس طرح وہ خود اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ اور کسی معاملہ میں اپنے باپ کی مخالفت نہ کرے۔ کیونکہ اس حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے اور اس کے مال، دونوں کی نسبت باپ کی طرف کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کی گئی نسبت کی وجہ سے جس طرح بیٹا اپنے باپ کا مملوک نہیں بنتا، اسی طرح اس کا مال بھی اس کے باپ کی ملکیت نہیں بنتا۔ (شرح معانی الآثار:۴/۱۵۸، مشکل الآثار: ۴/ ۲۷۷)
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے کی ذات کی نسبت، اس کے باپ کی طرف کی ہے، جس طرح کہ اس کے مال کی نسبت اس کے باپ کی طرف کی ہے۔ اگر بیٹے کے مال میں باپ کا تصرف جائز ہوتا تو بیٹے کی ذات میں بھی باپ کا تصرف جائز ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس کی غلاموں کی مانند خریدوفروخت کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اس نسبت سے بیٹا اپنے باپ کا مملوک نہیں بنتا، اسی طرح اس کا مال بھی باپ کی ملکیت نہیں بنتا۔
٭ امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جتنا فائدہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے، اتنا فائدہ کسی مال نے نہیں دیا۔‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ((إنما أنا ومالي لک یا رسول اﷲ))’’اے اللہ کے